شخصیت کاارتقا
قرآن کی ایک اصطلاح تزکیہ ہے۔ انسانی فلاح کا ذریعہ قرآن میں تزکیہ ( 91:9-10) کو بتایا گیاہے۔ قرآن کے مطابق جنت کی اعلی دنیا میں صرف ان افراد کو داخلہ ملے گا جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ کیا تھا ( 20:76) ۔
تزکیہ کا لفظی مطلب تطہیر (purification) ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک با معنی مشین کی صورت اختیار کرتاہے، اسی طرح انسان کی شخصیت بھی مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک مزکیّٰ شخصیت (purified soul) کی صورت اختیار کرتی ہے۔
یہ شدید مراحل کیا ہیں، یہ شدید مراحل وہ ہیں جب کہ انسان کو غیر مطلوب حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہ غیر مطلوب حالات وہ مواقع ہیں جن سے گزرتے ہوئے انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔
جب انسان کی ایگو پر ضرب لگے اور وہ عدل پر قائم رہے، جب انسان کو غصہ آئے اور وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرلے، جب انسان کو کوئی بڑائی ملے لیکن وہ متواضع (modest) بنا رہے، جب انسان کےاندر انتقام کی آگ بھڑکے اور وہ اپنے اندر ہی اندر اس آگ کو بجھا دے، جب انسان کے اندر کسی کے خلاف نفرت جاگ اٹھے اور وہ پھر بھی اس کے لیے اپنی خیر خواہی کو باقی رکھے، جب انسان پر کوئی دباؤ نہ ہو، اس کے باوجود وہ اعتراف (acknowledgement) کا ثبوت دے، وغیرہ۔ یہی وہ مواقع ہیں جو انسان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔
یہ مواقع معتدل حالات میں پیدا نہیں ہوسکتے، یہ صرف غیر معمولی حالات (abnormal situation) میں پیداہوتے ہیں۔ قرآن کے مطابق اس امتحان میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جس کے اندر صبر کی صفت پائی جائے (41:35)۔