انسان کا اعتراف
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ، لَمْ يَشْكُرِ اللهَ (مسند احمد،حدیث نمبر 7504)۔یعنی، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا : جو آدمی لوگوں کا شکر نہ کرے، وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرے گا۔
شکر ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ کیفیت کسی آدمی کے دل میں پیدا ہو جائے تو وہ منقسم ہو کر نہیں رہ سکتی۔ اگر وہ ایک معاملہ میں ظاہر ہوگی تو یہ ناممکن ہے کہ وہ اسی قسم کے دوسرے معاملہ میں ظاہر نہ ہو۔ جب آدمی ایک کا شکر گزار ہوگا تو وہ دوسرے کا بھی ضرور شکرگزار ہوگا۔
بندہ کا احسان آنکھ سے دکھائی دیتا ہے، وہ ایک براہ راست تجربہ ہے۔اس کے برعکس، خدا کا جو احسان ہے وہ ظاہری آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا، وہ آدمی کے لیے براہِ راست تجربہ نہیں۔خدا کے احسان کو سوچ کر جاننا پڑتا ہے۔ بندہ کے احسان کو آدمی بذریعہ مشاہدہ جانتا ہے اور خدا کے احسان کو بذریعہ تفکر۔جو آدمی براہِ راست مشاہدہ میں آنے والے واقعہ کا احساس نہ کر سکے، وہ ایسے واقعہ کو کیوں کر محسوس کرے گا جو بالواسطہ غور وفکر کے ذریعہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔
کوئی احسان کرنےوالا جب احسان کرتا ہے تو آدمی اس کے احسان کا اعتراف اس لیے نہیں کرتا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح میں محسن کی نگاہ میں چھوٹا ہو جاؤں گا۔ حالانکہ ایسا کر کے وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے۔اس کے بعد وہ اپنے ضمیر کی نگاہ میں چھوٹا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کے نزدیک کم بن جاتا ہے۔ اور بلاشبہ اپنے ضمیر کے نزدیک کم ہونا، دوسرے کے نزدیک کم ہونے سے زیادہ سخت ہے۔
اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ بندوں کے احسان نہ ماننے سے آدمی کے اندر بے اعترافی کا مزاج بنتا ہے۔ اولاً وہ انسان کا اعتراف نہیں کرتا۔ اور اس کے بعد اس کا بگڑا ہوا مزاج اس کو یہاں تک لے جاتا ہے کہ وہ رب العالمین کا بھی سچا اعتراف نہیں کر پاتا۔ اور بلاشبہ اس سے زیادہ گھاٹا اٹھانے والا اور کوئی نہیں جو اپنے رب کا اعتراف کرنے سے عاجز رہے۔