حکمتِ صبر
ایمانی زندگی بااصول زندگی کا نام ہے۔ مومن انسان ایک بامقصد انسان ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جذباتی ردعمل کے تحت کوئی اقدام نہیں کرسکتا۔ اس کے سامنے جب کوئی صورت حال آئے گی تو وہ رک کر سوچے گا کہ اس معاملے میںکون سا ردّ عمل میرے اصول اور مقصد کے مطابق ہے اور کون سا رد عمل میرے اصول اور مقصد کے خلاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیش آمدہ معاملات میں عاجلانہ جواب (hasty response) کا نام بے صبری ہے، اور سوچے سمجھے جواب (considered response) کا نام صبر۔
اس صبر کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ آپ پر ایک خواہش کا غلبہ ہوتا ہے، مگر آپ ایسا نہیں کرتے کہ خواہش پیدا ہوتے ہی اس کو کر گزریں بلکہ آپ اپنے کو تھام کر سوچتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو شریعت خداوندی کا تقاضا ہے تو یہ صبر ہے۔ کسی شخص سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے۔ آپ کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ مگرآپ اپنے کو روکتے ہیں اور پھر وہ کرتے ہیں جو ایمان کا تقاضا ہے، تو یہ صبر ہے۔ آپ اسلامی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، آپ کے راستے میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں، اب آپ اندھا دھند اقدام نہیں کرتے، بلکہ سارے پہلوؤں کو شریعت کی روشنی میں جانچتے ہیں اور اس کے بعد وہی کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق کرنا چاہیے تو یہ صبر ہے۔ آپ ایسے حالات میں گھِر جاتے ہیں جو آپ کی مرضی کے خلاف ہیں۔ اب آپ فوری جذبے کے تحت اٹھ کر حالات سے لڑنے نہیں لگتے، بلکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں پورے معاملے کو جانچتے ہیں اور اس کے بعد وہ کرتے ہیں جو قرآن اورسنت کی منشا ہے، نہ کہ وہ جو آپ کی ذاتی منشا ہے، تو اس کا نام صبر ہے۔صبر مومن کا دستورہے، صبر مومن کا اصولِ حیات ہے۔ صبر وہ حکیمانہ طریق ِ عمل ہے جو مومن اس دنیامیں اختیار کرتا ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کی صفت نہ ہو، اس کے متعلق یہ امر مشتبہ ہے کہ اس کو ایمان کی معرفت ملی ہے، یا ابھی تک اس کو ایمان کی معرفت نہیں ملی۔