صبر کب تک
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ الرسالہ میں اکثر صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ آخر یہ صبر کب تک۔ میں نے کہا کہ آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں خود آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ آپ پہلے میرے سوال کا جواب دیں۔ اس کے بعد میں اس بات کی وضاحت کروں گا جو آپ نے دریافت فرمائی ہے۔
پھر میں نے کہا کہ اسلام میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اگر ایک شخص آپ سے پوچھے کہ آخر یہ پانچ وقت کی نماز کب تک پڑھی جاتی رہے گی، تو آپ ایسے شخص کو کیا جواب دیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ نماز تو اللہ کی عبادت ہے۔ اس کی کوئی آخری حد نہیں ۔نماز ہر آدمی کو ساری عمر ادا کرنا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت کا وقت آجائے۔
میں نے کہا کہ یہی آپ کے سوال کا جواب بھی ہے۔ صبر بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ آدمی کو اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک صبر کی روش اختیار کرنا ہے۔ موت سے پہلے کسی سے یہ حکم رفع نہیں ہوتا۔ ایک مسلمان کو جس طرح نماز پڑھنا ہے، اسی طرح اس کو صبر بھی کرنا ہے۔
آپ دیکھئے۔ قرآن میں نماز کا حکم جن لفظوں میں دیا گیا ہے، ٹھیک انھیں لفظوں میں صبر کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ نماز کے بارے میں قرآن میں ہے کہ: فَصَلِّ لِرَبِّكَ(108:2)۔اسی طرح صبر کے بارے میں قرآن میں فرمایا کہ:وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (74:7)۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز بھی اللہ کے لیے ہے اور صبر بھی اللہ کے لیے۔ دونوں ہی مومن کی پوری زندگی کا کورس ہیں۔ دونوں ہی کی حد اس وقت آتی ہے، جب کہ خود مومن کی زندگی کی حد آ جائے ۔
صبر با مقصد انسان کا اخلاق ہے۔ مومن سب سے بڑا بامقصد انسان ہوتا ہے۔ اس لیے مومن سب سے زیادہ صبر والا ہوتا ہے۔ ایمان آدمی کے دل کو نرم کرتا ہے۔ وہ آدمی کو دوسروں کا خیر خواہ بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر تواضع اور اعتراف کی صفت پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر یہ جذبہ ابھارتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بنے ۔ ان صفتوں کے ساتھ جو اخلاقی روش مناسبت رکھتی ہے، وہ صبر ہی ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص کبھی ان اعلیٰ صفات پر قائم نہیں رہ سکتا۔