مومن کا کنسرن
ایک مومن کا سب سے بڑا کنسرن (concern) یہ ہوتاہے کہ آخرت میں اس کو جنت میں داخلہ ملے، وہ اپنی ابدی زندگی میں جنت کا باشندہ بن کر رہ سکے۔ جنت میں داخلہ کس کو ملے گا، اِس سوال کا جواب قرآن میں اِن الفاظ میں دیاگیا ہے:ذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى (20:76)۔یعنی، جنت اس کے لیے ہے جو اپنا تزکیہ کرے۔
تزکیہ کوئی پراسرار چیز نہیں۔ تزکیہ کے حصول کا اصل ذریعہ مثبت طرزِ فکر ہے۔ مثبت طرزِ فکر سے آدمی کے اندر مثبت شخصیت بنتی ہے، اور مثبت شخصیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کو فرشتوں کی صحبت حاصل ہو۔ اِس طرح کسی آدمی کے اندر تزکیہ کا پراسس (process) شروع ہوتا ہے۔ وہ فرشتوں کی صحبت میں تزکیہ کا سفر کرتا رہتا ہے، یہی سفر اس کے اندر مزکیّٰ شخصیت (purified soul) کی تعمیر کرتا ہے، اور یہی مزکیّٰ شخصیت ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے۔ موت سے پہلے جنتی شخصیت کی تیاری ہے اور موت کے بعد اس تیار شدہ شخصیت کا جنت میں داخلہ۔
نفرت اور تشدد کا ماحول تزکیہ کے عمل کے لیے قاتل (killer) کی حیثیت رکھتا ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول میں شخصیت کے تزکیہ کے عمل کا جاری ہونا ممکن نہیں۔ جس آدمی کے اندر جنت کی طلب ہو، اس کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفرت کومٹائے، وہ تشدد کو ہرقیمت پر ختم کرے۔ جہاں نفرت اور تشدد سے پاک یہ ماحول بنے گا، وہیں یہ ممکن ہوگا کہ تزکیہ کا مثبت عمل جاری ہو، اور اُس مثبت شخصیت کی تعمیر ہو جو جنت میں داخلے کی مستحق قرار پائے۔
جنت، خدا کے پڑوس کا دوسرا نام ہے۔ خدا کے پڑوس میں ایسا انسان کبھی نہیں بسایا جائے گا جس کے اندر نفرت اور تشدد کا مزاج پایا جاتا ہو۔ جو آدمی جنت کا حریص ہو، جو آدمی خدا کے پڑوس میں جینے کی تمنا رکھتا ہو، اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفرت اور تشدد کا مکمل خاتمہ کرے۔ موجودہ دنیا میں تشدد جہنم کا نمائندہ ہے اور امن جنت کا نمائندہ۔