رواداری کااصول
جنوری1995ءکی پہلی تاریخ کوتمام اخباروں میں یہ خبر تھی کہ اقوام متحدہ نے 1995ء کے سال کورواداری کاسال( Year of Tolerance) قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک سے جاری ہونے والے اعلانیہ میں کہا گیا تھا کہ اپنے عمل، اپنے عقیدہ اور اپنی رائے میں روادار ہونا وہ سب سے بڑا عامل ہے جس کے ذریعہ پر امن دنیا تعمیر کی جا سکتی ہے۔
موجودہ زمانہ میں جگہ جگہ نسلی ٹکرائو، اقلیتوں کے خلاف امتیاز اور پناہ گزینوں کے خلاف نفرت کا اظہار ہورہا ہے۔ا س کا واحد حل رواداری ہی ہے۔نسل پر ستی اور مذہبی انتہا پسندی بہت سے ملکوں میں امتیازی سلوک تک پہنچ گئی ہے۔ ان لوگوں کو ڈرایا دھمکا یا جارہا ہے جو مختلف نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ اس طرح ان مصنفوں اور صحافیوں کے خلاف تشددکے واقعات ہو رہے ہیں جو اظہارِ خیال کی آزادی کے حق کو استعمال کر نا چاہتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی آمد کے موقع پر یہ زبردست چیلنج ہمارے سامنے ہے اور اس کا واحد حل رواداری ہے۔نارواداری صرف مسائل میں اضافہ کرتی ہے۔ وہ مسائل کوختم نہیں کرتی۔ نارواداری اگر زیادہ بڑھ جائے تو وہ عالمی امن کے لیے ایک زبردست خطرہ بن جائے گی ۔
1995 as Year of Tolerance
The United Nations has proclaimed 1995 as the Year of Tolerance,saying the ability to be tolerant of the actions, beliefs and opinions of others is a major factor in promoting world peace. Amid the resurgence of ethnic conflicts, discrimination against minorities and xenophobia directed against refugees and asylum-seekers, tolerance is the only way forward, said the statement of the United Nations Educational, Scientific and Cultural Organisation, (UNESCO). It said, racism and religious fanaticism in many countries had led to many forms of discrimination and the intimidation of those who hold contrary views. Violence and intimidation against authors, journalists and others who exercise their freedom of expression, were also on the increase along with political movements which seek to make particular groups responsible for social ills such as crime and unemployment. Intolerance is one of the greatest challenges we face on the threshold to the 21st century, said the UNESCO statement. Intolerance is both an ethnic and a political problem. It is a rejection of the differences between individuals and between cultures. When intolerance becomes organised or institutionalised it destorys democratic principles and poses a threat to world peace. (The Hindustan Times, January 1, 1995)
اقوام متحدہ کا یہ اعلان نہایت صحیح اور بروقت ہے۔ آج دنیا کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہی رواداری یا ٹالرنس ہے۔
زندگی کی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق ہر سطح پر پایاجاتا ہے۔ خواہ کوئی خاندان ہو یا کوئی سماج ہو یا کوئی ملک ہو، ہر جگہ ایک اور دوسرے میں فرق اور اختلاف ضرور پایاجائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس فرق اور اختلاف کی موجود گی میں اتحاد اور میل ملاپ کس طرح پیداکیا جائے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اتحاد کاماحول اگر بنانا ہے تو اختلافات کو مٹادینا ہو گا۔مگر یہ رائے غلط ہے ،کیوں کہ وہ قابل عمل نہیں۔ اگر آپ پھول کے ساتھ کانٹے کو پسند نہ کرتے ہوں تو آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ کانٹوں کو توڑ کر کانٹوں کاخاتمہ کر دیں۔ کیوں کہ آپ ڈالی کا ایک کانٹا تو ڑیں گے تو اس کی جگہ دوسرا کانٹا نکل آئے گا۔ حتی کہ اگر آپ تمام پھولوں پر بلڈوزرچلادیں تب بھی جو نیا درخت اُگے گا، اس میں دوبارہ پھول کے ساتھ کانٹے بھی ضرور موجود ہوں گے۔
اس دنیا میں کانٹوں کو گوارا کرکے ہی پھول کو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔اسی طرح اختلافات کو برداشت کرکے ہی پرامن سماج بنایا جا سکتا ہے۔ اس دنیا میں اختلاف کے باوجود متحد ہو نے سے اتحاد حاصل ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کو مٹاکر متحد ہونے سے ۔کیوں کہ اختلاف کومٹانا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ امن کی زندگی کو حاصل کرنے کا واحد راز ہے— بے امنی کو گوار اکرنا۔
دنیا میں فرق اور اختلاف ہونا کوئی برائی کی بات نہیں۔یہ ایک مثبت خصوصیت ہے اور اس کے بہت سے بڑے بڑے فائدے ہیں۔ باغ حیات کی خوشنمائی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اتحاد کے پھول کے ساتھ اختلاف کاکانٹا بھی پایاجائے۔
اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسانوں میں اعلیٰ اخلاقیات کی تربیت ہوتی ہے۔اپنے ہم خیال لوگوں کے درمیان اگر آپ خوش اخلاق ہوں توآپ نے محض ابتدائی اخلاق کا ثبوت دیا۔لیکن اگر آپ ان لوگوں کے درمیان خوش اخلاقی کارویہ اختیار کریں جو آپ سے الگ خیال رکھتے ہیں یا آپ کے ناقدہیں تو آپ نے یہ استحقاق حاصل کیا کہ آپ کو اعلیٰ اخلاقی سلوک کاکریڈٹ دیاجائے۔
اسی طرح اگر سماج میں تمام لوگ بالکل ایک رائے کے ہوں۔ ان میںکوئی اختلافی بحث نہ پیدا ہو تی ہو تو ایسا سماج پتھر کے اسٹیچو کاسماج بن جائے گا۔ اس کے درمیان رہنے والوں کی فکری ترقی رک جائے گی۔ فکری ترقی ہمیشہ افکار کے ٹکرائو کے درمیان ہوتی ہے ۔ پھرجہاں افکار کاٹکرائوہی نہ ہووہاں فکری ترقی کس طرح ہو سکتی ہے۔
نزاع اور اختلاف کے مقابلہ میں رواداری کا طریقہ اختیار کرنا کوئی انفعالی صفت نہیں۔یہ عین ایجابی صفت ہے۔ زندگی کی تعمیر میں اختلافات کانہایت اہم رول ہے۔ اختلافات کے عمل کے دوران ہی اعلیٰ انسانی شخصیت بن کرتیا رہوتی ہے ۔ا گر انسانی سماج سے اختلاف کی حالت کو ختم کر دیاجائے تو اس کے بعد اعلیٰ شخصیتوں کا بننا بھی یقینی طور پر رک جائے گا۔
اس دنیا میں کوئی بھی انسان کامل نہیں ہو تا۔ہر آدمی کایہ حال ہوتا ہے کہ اس میں ایک صفت ہوتی ہے تو دوسری صفت اس کے اندر نہیں ہوتی ۔ یہ بھی ایک سبب ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فرق اور اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔
مگر اجتماعی زندگی کے لیے یہ اختلاف ایک رحمت ہے۔کیوں کہ اسی اختلاف کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک آدمی کی کمی کو دوسراآدمی پورا کرے۔ ایک کی خصوصیت دوسرے کے کام آئے۔ اگر لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے اختلاف کو گوار اکرنے کامزاج ہوتو یہ اختلاف مجموعی انسانی ترقی کاایک طاقتور وسیلہ بن جائے گا۔
1947ءکے بعد جب انڈیا میں پہلی آزادحکومت بنی تو اس میں دو اہم لیڈر شامل تھے۔ ایک پنڈت جواہرلال نہرو، دوسرے سردار ولبھ بھائی پٹیل۔ پنڈت نہرو کے اندر مغربیت تھی اور سردار پٹیل کے اندر مشرقیت۔ اس بنا پر دونوں لیڈروں میں اکثررائے کا اختلاف ہوجاتا تھا۔ مگر یہ اختلاف قوم کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔ کیوں کہ پنڈت نہرو کی صلاحیت سے سردار پٹیل کی کمی پوری ہوئی، اور سردار پٹیل کی صلاحیت پنڈت نہرو کی کمی کو پورا کرنے کا ذریعہ بن گئی۔
یہ ایک قریبی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رائے اور طبیعت کا اختلاف انسانیت کی عمومی ترقی کے لیے کتنا زیادہ ضروری ہے۔
رواداری کی خصلت آدمی کو اس سے بچاتی ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو غیرضروری چیز میں ضائع کرنے لگے۔ جب آپ کسی کی خلاف ِمزاج بات سے منفی اثرقبول کرلیں تو آپ کاذہنی اعتدال بگڑ جائے گا۔ اس کے برعکس، جب اس طرح کی صورت پیش آنے پر آپ اس کا منفی اثرنہ لیں تو آپ کاذہنی اعتدال پوری طرح برقرار رہے گا۔ آپ اپنا ایک لمحہ کھوئے بغیر ایک نارمل انسان کی طرح ہمیشہ اپنا کام جاری رکھیں گے۔ رواداری اور تحمل کی پالیسی آپ کی کارکردگی کی عمر کوبڑھاتی ہے، اور نارواداری اور عدم ِتحمل کارویہ آپ کی کارکردگی کی عمر کو گھٹادیتا ہے۔
رواداری یا ٹالرنس کوئی مجبور انہ فعل نہیں، وہ زندگی کا ایک مثبت اصول ہے ۔ یہ ایک اعلیٰ انسانی کردار ہے۔کسی سماج میں روادار انسانوں کاہونا ایسا ہی ہے جیسے کسی باغ میں پھول کا ہونا۔ پھول کے بغیر باغ نہیں، اسی طرح روادار نسانوں کے بغیر ترقی یافتہ سماج نہیں۔(آل انڈیاریڈیو ممبئی سے3مارچ 1995ءکو نشرکیا گیا)