اختلاف کو حل کرنے کی تدبیر
قدیم زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ الحرب انفٰی للحرب (جنگ کا توڑ جنگ ہے)۔ یہ فکر ہزاروں برس سے انسان کے اندر چلی آرہی تھی۔ بد قسمتی سے یہی فکر تاریخی تسلسل کے نتیجہ میں خود مسلمانوں میں کسی نہ کسی طورپر جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اب تک کی مسلم تاریخ میں اس کے نمونے پھیلے ہوئے ہیں۔ 1948ء میں فلسطین کا مسئلہ پیدا ہوا جو عملاً پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ اس وقت بھی تمام مسلم ذہن اسی ڈھنگ پر سوچنے لگے۔ اس سوچ کی نمائندگی ایک عرب شاعرخیر الدین الزرکلی (وفات1976ء) کے شعر میں ان الفاظ میں ملتی ہے— صلاح الدین ایوبی کو ہمارے درمیان دوبارہ لے آؤ، حطین یا حطین جیسے معرکے دوبارہ گرم کرو:
هاتي صلاح الدين … ثانية فينا
وجددي حطين … أو شبه حطينا
اقبال اپنے علم اور ذہانت کے باوجود اس فکر سے اوپر نہ اُٹھ سکے۔ ان کا پورا کلام کسی نہ کسی طورپر اسی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ مثال کے طورپر ان کا یہ شعر پڑھیے:
گفتند جهان ما آیا بتو می سازد گفتم که نمی سازد گفتند که برهم زن
یعنی، دریافت فرمایا کہ میرا جہاں تمہارے ساتھ سازگاری کررہا ہے؟ میں نے جواب دیا سازگاری نہیں کر رہا ۔کہاکہ اسے درہم برہم کر دو۔
اسلام اس معاملہ میں انقلابی تبدیلی کا پیغام تھا۔ جنگ کیوں ہوتی ہے۔جنگ ہمیشہ اختلافات کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ لوگ اختلاف کو صرف مٹانا جانتے تھے، اس لیے وہ فوراً فریقِ ثانی سے لڑ جاتے تھے۔ اسلام نے اس معاملہ میں ایک نئے اُصول کو رواج دیا۔ قرآن میں یہ اُصول ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:وَالصُّلْحُ خَيْرٌ (4:128)۔یعنی،اور صلح بہتر ہے۔
اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ صلح بہتر ہے۔ صلح کیا ہے۔ صلح یہ ہے کہ اختلاف کو مٹانے پر زور نہ دیا جائے بلکہ اختلاف کو گوارہ کرتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ گویا اس کا مطلب ہے، اختلاف کے باوجود اتحاد۔ اس فارمولے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Art of difference management
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی تدبیر کا عملی نمونہ ہے۔ مثال کے طورپر آپ نے قدیم مکہ میں610ء میں دعوتِ توحید کا مشن شروع کیا۔ اس وقت توحید کے نقطۂ نظر سے مکہ میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ توحید کے گھر (کعبہ) میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ مگر اس وقت قرآن میں اس مفہوم کی کوئی آیت نہیں اتری: طَہِّر الکعبۃ من الأصنام (کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)۔بلکہ اس کے بجائے قرآن میں یہ آیت اتری کہ : وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ(74:4)۔ یعنی، اپنے اخلاق کو درست کرو۔
اس قرآنی اُصول پر عمل کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے یہ کیا کہ آپ نے مکہ کے تیرہ سالہ قیام کے زمانہ میں کبھی بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ لوگوں کو توحید کا پیغام دینے کی پر امن جدوجہد شروع کردی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ انہی میں سے ایک نمایاں واقعہ صلح حدیبیہ628ء کا ہے۔ یہ صلح گویا ڈیفرنس مینجمنٹ(difference management) کی ایک کامیاب مثال تھی جو انسانی تاریخ میں غالباً پہلی بار نہایت کامیابی کے ساتھ قائم کی گئی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سخت انتباہ دیا تھا کہ اختلاف خواہ کتنا ہی بڑا ہو وہ ہرحال میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو حل کرے۔ کسی بھی حال میں وہ ایسا نہ کرے کہ اتحاد کے نام پر اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرے۔ حدیث کے مجموعوں میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے بعد امراء اور حکام کے اندر بگاڑ آئے گا مگر تم ہرگز ان سے ٹکراؤ نہ کرنا۔ تم ظلم کے باوجود ان کا حق ادا کرنا اور اپنے حق کے لیے اللہ سے دعا کرنا(أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ، وَسَلُوا الله حقكم) مسند احمد، حدیث نمبر 3641۔
اس معاملہ میں ایک حدیث وہ ہے جو سنن ابوداؤد، جامع الترمذی، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں آئی ہے۔ یہ ایک لمبی روایت ہے، اس کا آخری حصہ یہ ہے:
إِنِّي لَأَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ ، فَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ(تفسیر عبد الرزاق، حدیث نمبر 814)۔ یعنی، مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ گمراہ کن لیڈروں سے ہے او رجب تلوار میری امت میں داخل ہوگی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی۔
اس حدیث کا مطلب در اصل یہ ہے کہ امت میں جب اختلافات پیدا ہوں گے تو نااہل لیڈر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو رفع نہ کرسکیں گے بلکہ وہ اختلاف کو دور کرنے کے نام پر لڑائی چھیڑ دیں گے اور جب ایک بار امت میں دین کے نام پر لڑائی کی روایت قائم ہوگئی تو اجتماعی نفسیات کی بنا پر وہ قیامت تک جاری رہے گی۔
حدیث کی یہ پیشین گوئی بد قسمتی سے امت کی بعد کی تاریخ کے بارے میں درست ثابت ہوئی۔ امت کے اندر وضع سیف کا یہ معاملہ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کی شہادت کے ساتھ شر وع ہوا۔ پھر اس کے بعد وہ اس طرح مسلسل جاری ہو گیا کہ امت کی ہزار سالہ تاریخ میں وہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ خلیفہ چہارم اور دمِ عثمان کے نام پر اُٹھنے والوں کے درمیان جنگ، حسین اور یزید کے درمیان جنگ، بنوامیہ اور بنو عباس کے درمیان جنگ، سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ، مغلوں اور غیر مغلوں کے درمیان جنگ، اسی طرح موجودہ زمانہ میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان جنگ، وغیرہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اخْتِلافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 39)۔ یعنی، میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف (difference) خدا کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ فطرت کا ایک لازمی جزء ہے اس لیے اختلاف کبھی زندگی سے ختم نہیں ہوتا۔ امت کے اصحاب علم و معرفت اس راز کو سمجھیں گے اور اختلاف کو مٹانے کے بجائے اختلاف کے ساتھ جینے کی کوشش کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ڈیفرنس مینجمنٹ کے اصول پر اس مسئلہ کو حل کریں گے۔ اس طرح سنت کی پیروی کی صورت میں اختلاف امت محمدی کے لیے رحمت بن جائے گا۔ اختلاف کے ہوتے ہوئے وہ ترقی کا پر امن سفر کامیابی کے ساتھ طے کر سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دوسری بہت سی سنتیں ہیں اسی طرح وہ چیز بھی ایک سنت رسول ہے جس کو ہم نے آرٹ آف ڈیفرنس مینجمنٹ کا نام دیا ہے۔ اس اُصول کا تعلق اسلام کے تمام پہلوؤں سے ہے، کوئی بھی پہلو اس سے خالی نہیں۔
مثال کے طورپر فقہی اختلافات جو ہزار سال سے اب تک ٹکراؤ کا سبب بنے ہوئے ہیں ان کے معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا سادہ اُصول یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ یہ اختلافات توسع پر مبنی ہیں،نہ کہ تعددپر۔ ان میں سے جس طریقہ کی بھی پیروی کی جائے وہ درست ہوگا(بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ)۔
اسی طرح علی اور معاویہ کا معاملہ یا یہ سوال کہ چاروں خلفاء کے درمیان تفضیل کی بحث۔ اس قسم کے معاملات میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق (application) یہ ہے کہ اس کو خدا کے حوالہ کردیا جائے اور ہر فرقہ اپنی آج کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مشغول ہوجائے۔
موجودہ زمانہ میں اکثر مسلم ملکوں میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان تباہ کن ٹکراؤ جاری ہے۔ اس معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا انطباق یہ ہے کہ اسلام پسند جماعتیں حکومت کے دائرہ میں براہ راست مداخلت کا طریقہ چھوڑ دیں ۔ وہ غیر حکومتی دائرہ ، مثلاً تعلیم اور اصلاح اور دعوت کے شعبوں میں، اپنی کوششیں صرف کریں۔
موجودہ زمانہ میںہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان لیڈر یا مسلم گروہ مختلف ملکوں میں کسی نہ کسی قومی یا ملّی مقصد کے حوالہ سے غیر مسلم حکومتوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہیں۔ مثلاً فلسطین اور کشمیر او رچیچنیا اور فلپائن ،وغیرہ میں۔ ان مقامات پر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق یہ ہے کہ ہر قسم کے تشدد کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے اور صرف مسلّمہ پرامن طریق کار کی پابندی کرتے ہوئے اپنی تحریک چلائی جائے۔
قرآن کریم کی آیت:وَالصُّلْحُ خَيْرٌ(4:128)۔یعنی، صلح بہتر ہے— بتاتی ہے کہ ڈیفرنس مینجمنٹ کا مذکورہ طریقہ مطلق طورپر خیر کا سبب ہے۔ وہ ہر حال میں قابل عمل ہے۔ یہ طریقہ صرف اس وقت ناقابل عمل بن جاتا ہے جب کہ تشدد کا آغاز کرکے فضا کو بگاڑ دیا جائے۔ تشدد کا آغاز لازمی طورپر جوابی تشدد پیدا کرے گا اور پر امن طریق کار کو اختیار کرنا ممکن نہ رہے گا۔ اگر مسلمان یہ غلطی کریں کہ تشدد کا آغاز کرکے وہ صورت حال کو بگاڑ دیں تو خود انہیں کو دوبارہ صورت حال کو نارمل بنانے کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے تشدد کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں تا کہ وہ موافق فضا پیدا ہو جس میں ڈیفرنس مینجمنٹ پر عمل کرنا ممکن ہو جائے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ مذکورہ اصول فطرت ہی کا ایک اصول ہے جس کو اسلام میں اختیار کیا گیاہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں لازماً ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔ ایک اور دوسرے کے درمیان مختلف اعتبار سے اتنا زیادہ فرق پایا جاتا ہے کہ ہر انسان کو مسٹر ڈیفرنٹ کہنا صحیح ہوگا۔ اس دنیا میں ہر سماج فرق و اختلاف والا سماج ہے۔ یہ فرق و اختلاف چونکہ خود فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے اس لیے اس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ایسی حالت میںقابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ فرق کے ساتھ نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے نہ کہ فرق کو مٹانے کا۔
It requires difference management rather than eliminating the difference.
فطرت کے اس اصول کا تعلق مذہبی معاملہ سے بھی ہے اور سیکولر معاملہ سے بھی۔ اس دنیا میں کوئی بھی نظام مذہبی ہو یا غیر مذہبی، کامیاب طورپر وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو ڈیفرنس مینجمنٹ کا آرٹ جانتے ہوں۔ فرق و اختلاف کو مٹانا تشدد پیدا کرتا ہے اور فرق و اختلاف کو مینج کرنا امن اور ہم آہنگی کا سبب بنتا ہے۔
فرق و اختلاف کوئی بُرائی نہیں، وہ ترقی کا زینہ ہے۔ فرق و اختلاف سے اجتماعی زندگی میں چیلنج پیدا ہوتا ہے۔ اور چیلنج کا سامنا کرنا ہی اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا واحد راز ہے۔