منفی پہلو میں مثبت پہلو
1947ءسے پہلے ہندستان میں بر ٹش راج تھا۔ اُس زمانہ میں برٹش حکمرانوں نے ہندستان میں انگریزی زبان کو سرکاری زبان بنایا اور پوری طاقت سے انگریزی زبان کو ہندستان میں رائج کیا۔ یہاں تک کہ انگریزی زبان کے اعتبار سے امریکا اور برطانیہ کے بعد ہندستان تیسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔
برٹش حکمرانوں نے اپنے خیال کے مطابق، ہندستان میں انگریزی زبان کو اس لیے رائج کیا تھا کہ وہ اس ملک پر ہمیشہ کے لیے اپنا غلبہ قائم رکھیں۔ برٹش حکومت نے انگریزی زبان کو صرف اپنے مفاد کے لیے یہاں جاری کیا تھا۔ مگر آج یہی انگریزی زبان ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا سرمایہ بن گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی تمام تر انگریزی زبان پرقائم ہے اور انگریزی زبان میں ہندستان دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں بہت آگے ہے۔ چین اور روس دونوں بہت بڑے ملک ہیں۔ مگر دونوں ہندستان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم کو تمہاری انگریزی کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی انگریزی اکسپورٹ کرو۔
اس مثال سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کا حریف خواہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے کوئی عمل کرے، مگر عین ممکن ہے کہ مستقبل کے لحاظ سے وہ تمام تر آپ کے فائدے میں ہو۔ حتیٰ کہ حریف اگر آپ کے خلاف کوئی سازشی منصوبہ بنائے تب بھی یہ امکان باقی رہے گا کہ اس کی سازش آپ کے لیے ترقی کا ایک زینہ بن جائے۔ حریف کی بنائی ہوئی دنیا آخر کار آپ کے حصہ میں آجائے۔
اس دنیا میں ہر منفی واقعہ میں مثبت پہلو موجود رہتا ہے۔ اگر آپ اس مثبت پہلو کو دریافت کرسکیں تو آپ کو کسی کے خلاف شکایت کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ مثبت پہلو کی دریافت آپ کو اپنی تعمیر میں اتنا زیادہ مشغول کردے گی کہ آپ کے پاس دوسروں کے خلاف لکھنے اور بولنے کے لیے وقت ہی نہ رہے۔