دشمن میں دوست
روایات میں آتا ہے کہ محرم3ھ میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غطفان کی جانب سفر کیا۔ اس سفر سے واپسی میں آپ ایک موقع پر ایک درخت کے نیچے تنہا لیٹ کر آرام فرما رہے تھے۔ اس وقت مشرکین میں سے ایک شخص ادھر سے گزرا۔ وہ آپ کو اکیلا دیکھ کر آپ کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تلوار تھی۔ اس نے کہاکہ اے محمد، تم کو مجھ سے کون بچائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ۔ اس کے بعداس نے تلوار رکھ دی اور آپ کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ نے تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور کہا کہ اب بتائو کہ تم کو مجھ سے کون بچائے گا۔اس نے کہاکہ آپ بہتر تلوار لینے والے ہیں۔ آپ نے اس سے یہ وعدہ لے کر چھوڑ دیا کہ وہ آئندہ کبھی آپ کے مقابلہ میں نہیں آئے گا۔ اس کے بعد وہ اپنے قبیلہ والوں کے پاس گیا اور کہا کہ میں تمھارے پاس سب سے اچھے انسان سے مل کر آرہا ہوں:جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ خَيْرِ النَّاسِ (مسند احمد، حدیث نمبر 15190؛ سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر 2504)۔
دوسری روایت کے مطابق، اعرابی کایہ کہنا اس کے قبیلہ والوں کے لیے اسلام سے قربت کا سبب بن گیا۔ چنانچہ پورا کا پورا قبیلہ آپ کا ساتھی بن گیا (مغازی الواقدی، جلد1، صفحہ 196)۔ جس آدمی نے آپ کی جان لینے کا ارادہ کیا تھا، آپ کے حسنِ اخلاق کے نتیجہ میں اس نے اپنے قبیلہ کے تمام آدمی کو آپ کا ساتھی بنا دیا ۔
ہر آدمی کے اندر پیدائشی طور پر دو مختلف صلاحیتیں ہیں۔ ایک نفسِ لوّامہ (ضمیر) اور دوسرے، نفسِ اماّره (انانیت)۔ یہ دونوں صلاحیتیں ابتدائی طور پر سوئی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔ اب اگر آپ فریق ثانی کے نفسِ لوّ امہ کو جگائیں تو اس کی شخصیت کا انسانی جزء آپ کے حصہ میں آئے گا۔ اور اگر آپ فریق ثانی کے نفسِ اماّرہ کو جگائیں تو اس کی شخصیت کا حیوانی جزء آپ کے حصہ میں آئے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ آپ آدمی کے وجود کے انسانی حصہ کو جگائیں ۔ اس لیے آپ نہ صرف اچھوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے، بلکہ بروں کے ساتھ بھی آپ ہمیشہ اچھا سلوک کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے آدمی کی چھپی ہوئی فطرت جاگتی تھی۔ اور آخر کار وہ آپ کا ساتھی بن جاتا تھا۔
موجودہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل نہیں کرتے کہ بروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو۔ وہ ہمیشہ ردِّ عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا طریقہ صرف فریقِ ثانی کی انانیت کو جگانے کا باعث بنتا ہے ۔ خدا کے بندوں کے لیے ان کے پاس’’ معافی‘‘ نہیں، البتہ ان کے پاس ’’نفرت ‘‘ کافی مقدار میں موجود ہے، جس کو وہ لوگوں کے اوپر انڈیلتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خدا کے اس باغ میں صرف کانٹے ملیں گے ۔ وہ اس باغ کے پھولوں کے مالک نہیں بن سکتے۔ یہی قانونِ قدرت کا فیصلہ ہے۔