مثبت روش کا نتیجہ
اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیم (41:34)۔یعنی،اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ،تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔قرآن کی اس آیت میں عام اجتماعی زندگی میں حسنِ اخلاق (good behaviour)کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ حسن اخلاق بلاشبہ ایک اہم اسلامی قدر (Islamic value)ہے۔ لیکن قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ عداوت کی نسبت سے ہے، نہ کہ نارمل تعلقات کی نسبت سے۔
اسلام ایک مشن ہے، پرامن دعوتی مشن۔ باعتبارِ حقیقت یہ مشن پوری طرح پرامن اور غیر سیاسی مشن ہے۔ لیکن کسی ماحول میں جب اس مشن کے لیے کام کیا جائے تو کچھ لوگ نظریاتی بنیاد پر اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اس طرح داعی اور مدعو کے درمیان عملاً نزاع (controversy)کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے موقعے پر مدعو کی طرف سے داعی کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ قرآنی تعلیم اسی طرح کی نزاعی صورتِ حال کے بارے میں ہے۔
اس طرح کی صورتِ حال میں داعی کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہرگز اپنے کلام میں منفی رد عمل (negative reaction) کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ بلکہ وہ یک طرفہ طور پر مثبت رسپانس (positive response)کی روش پر قائم رہیں۔ داعی اگر اپنے آپ کو منفی ردعمل سے بچائے، مکمل طورپر دونوں کے درمیان اعتدال کی فضا قائم رہے، تو فطرت اپنا کام کرے گی۔ فطری پراسس کے تحت مدعو کی نفسیات بدلنا شروع ہو جائے گی، یہاں تک کہ یہ واقعہ پیش آئے گا کہ جو شخص بظاہر مخالف نظر آرہا تھا، وہ داعی کا حامی اور موافق بن جائے گا۔ منفی ردِّعمل مدعو کی ایگو (ego) کو بھڑکاتا ہے، مثبت رسپانس اس کو معتدل بنا دیتا ہے۔