داعیانہ صبر
قرآن میں انذار و تبشیر اور دعوت الیٰ اللہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ: وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ(74:7)۔یعنی،اور اللہ کے لیے صبر کرو۔
اس آیت میں جس صبر کا ذکر ہے اس سے مراد داعیانہ صبر ہے۔ یعنی دعوت کی راہ میں مدعو کی طرف سے جو زیادتی یا اشتعال انگیزی کی جائے اس پر بے صبر نہ ہو جاؤ،بلکہ مدعو کی روش سے قطع نظر کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو صبرو اعراض کے رویہ پر قائم رکھو۔
اس صبر کو اللہ کے لیے کیا جانے والا صبر اس لیے فرمایا کہ وہ تمام تر اللہ کے منصوبہ کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ داعی کے غیر صابرانہ جواب سے مدعو بدک نہ جائے اور داعی کی بات پر دھیان دینے کے لیے تیار نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو موجودہ دنیا میں آزمائش کے لیے رکھا ہے۔ یہاں کی محدود مدت میں انسان جیسا عمل کرے گا، اس کے مطابق اگلی لا محدود زندگی میں اس کے ساتھ انعام یا سزا کا معاملہ کیا جائے گا۔ یہ ایک بے حد نازک صورت حال ہے، کیونکہ انسان کو اگر زندگی کی اس امتحانی نوعیت سے پوری طرح باخبر نہ کیا جائے تو وہ قیامت کے دن کہہ سکتا ہے کہ ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی، ایسی حالت میں کیوں ہم کو پکڑا جاتا ہے اور ہمارا حساب لیا جاتا ہے۔
یہ ایک بے حد نازک معاملہ ہے۔ اگر لوگوں کو پوری طرح باخبر کر دیا جائے توحجت لوگوں کے اوپر چلی جاتی ہے۔ اور اگر لوگوں کو خبردار نہ کیا جائے تو حجت اللہ کی طرف لوٹ جاتی ہے(النساء،4:165)۔ چونکہ دعوت الی اللہ کا عمل اس حجت کو اللہ سے ہٹاتا ہے، اس لیے اللہ نے اس کو اپنا کام فرمایا ہے اور اس کے لیے صبر کرنے کو اللہ کے لیے صبر کرنا قرار دیا ہے۔
داعی گروہ اگر مدعو کی زیادتیوں پر صبر کر کے اپنا دعوتی عمل جاری رکھے تو اس کا یہ صبر اللہ کے لیے کیا جانے والا صبر ہو گا۔ اس کا اللہ کے یہاں بہت بڑا اجر ہے۔ اس کے برعکس، اگر داعی مدعو کی زیادتیوں پرمشتعل ہو جائے تو اس کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کو اللہ کے لیے صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا، مگر وہ اللہ کے لیے صبر کرنے پر راضی نہ ہوا۔