صبر کا بدلہ
قرآن میں صبر کی بے حد تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے اوپر زیادتی کرے اور تم صبر نہ کر سکو تو اس کے ساتھ تم اتنا ہی کر سکتے ہو جتنا اس نے تمھارے ساتھ کیا ہے ۔ مگر یہ صرف رخصت کی بات ہے ۔ ورنہ اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ تم معاف کر دو اور انتقام کے بجائے اصلاح کا انداز اختیار کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو تمھارا اجراللہ کے ذمہ ہو جائے گا اور تم کو کوئی نقصان نہ ہوگا:فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (42:40)۔
دنیا کی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے تکلیف پہنچتی ہے۔ کبھی ایک آدمی دوسرے کو ایک قول دیتا ہے مگر بعد کو وہ اسے پورا نہیں کرتا۔ کبھی کوئی شخص اپنے کو مضبوط پوزیشن میں پا کر کمزور فریق کے ساتھ نا انصافی کرتا ہے۔ کبھی کوئی شکایت پیش آنے کی بنا پر ایک شخص دوسرے شخص کو مٹانے اور برباد کرنے پر تل جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے ساتھی کو اس کا ایک جائز حق دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ کبھی کسی کی ترقی دیکھ کر آدمی کے اندر حسد پیدا ہوتا ہے اور وہ ناحق اپنے بھائی کی بربادی کے در پے ہو جاتا ہے ۔
اب اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص مظلوم ہے اس کے دل میں ظالم کے خلاف آگ بھڑک اٹھتی ہے ۔ وہ اس کی زیادتیوں کو بھولنے اور اس کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے مواقع پر دل کے زخم کو بھلا دینا انتہائی مشکل کام ہے ۔ لیکن اگر آدمی ایسا کرے کہ معاملہ کو اللہ کے اوپر ڈال دے، وہ اللہ کی خاطر اس کو برداشت کرے تو اس کا یہ عمل کبھی رائگاں نہیں جائے گا۔ جو چیز وہ انسانوں سے نہ پاسکا اس کو وہ خدا سے پا کر رہے گا۔
ایک شخص جب کسی کو ایک قول دیتا ہے تو گویا وہ اس کو ایک بینک چیک دے رہا ہے جو عمل کے وقت کیش کیا جاسکے ۔ مگر جب عمل کے وقت وہ اپنے قول سے پھر جاتا ہے تو گویا اس نے کاغذی چیک تو لکھ دیا مگر جب کھاتہ سے اس کی رقم لینے کا وقت آیا تو اس نے ادائیگی سے انکار کر دیا۔ ایسا تجربہ کسی انسان کے لیے تلخ ترین تجربہ ہے ۔ لیکن اگر وہ صبر کرے تو خدا کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے اس کا بدلہ دے گا ۔ جو چیک انسانی بینک میں کیش نہ ہو سکا وہ خدائی بینک میں کیش ہوگا، خواہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔