مصیبت کا مثبت پہلو
ایک حدیث قدسی ان الفاظ میں آئی ہے:مَا دَعَا اللهَ الْمُؤْمِنُ بِدَعْوَةٍ إِلَّا وُكِّلَ بِحَاجَتِهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَيَقُولُ:لَا تَعْجَلْ بِإِجَابَتِهِ فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَ صَوْتَ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ(حِلیۃ الاولیاء،جلد2، صفحہ327)۔یعنی، جب کوئی بندہ اللہ کو پکارتا ہے، تو جبریل فرشتہ کواس کی حاجت برآری کے لیے مقرر کردیا جاتا ہے، اوراللہ کہتا ہے کہ( اے جبریل) اس کی حاجت کو پورا کرنےمیںجلدی نہ کر، کیوں کہ مجھے یہ محبوب ہے کہ میں مومن بندے کی آواز کو سنوں۔
اللہ ایک مومن بندہ کی صوت (آواز) کو کیوں پسند کرتا ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس کی صوت(voice) میں کوئی نغمہ (melody)ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی بندہ مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتا ہے تو اس سے اس کی روحانی ارتقا (spiritual development) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ کو یہ روحانی ارتقا پسند ہے، نہ کہ صوت کا نغمہ۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے اوپر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کی حساسیت (sensitivity) کو بڑھاتی ہے۔ حساسیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی قوتِ اخذ (grasp) بڑھ جاتی ہے۔ اس بنا پر ایسا آدمی ،اگر وہ منفی سوچ میں مبتلا نہ ہو تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے تجربے سے زیادہ سے زیادہ سبق لے، وہ چیزوں میں چھپی ہوئی حکمت کو زیادہ سے زیادہ دریافت کرسکے۔
مصیبت حساسیت کو بڑھاتی ہے، اور حساسیت آدمی کی قوت اخذ میں اضافہ کرتی ہے، اور قوت اخذ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے آدمی کی معرفت کو بہت زیادہ بڑھادیتی ہے۔ مصیبت بجائے خود کوئی مطلوب چیز نہیں، مگر اس کا نتیجہ (result) اس کو مطلوب بنا دیتا ہے۔ معرفت جسمانی اعضاء کی طرح ایک تخلیقی عطیہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک خود دریافت کردہ چیز (self-discovered item)ہے، اور دریافت کا یہ عمل (process) ہمیشہ ناخوش گواری کے راستے سے گزرتا ہے۔ معرفت کے حصول کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ نہیں۔