صبر کی عبادت
نماز کا وقت ہو اور مسجد سے اذان کی آواز آئے تو ایک مسلمان خوش ہوتا ہے کہ اس کے لیے وقت آگیا کہ وہ نماز ادا کرے اور عبادت کا ثواب حاصل کرے ۔ اسی طرح جب رمضان کا نیا چاند آسمان پر نظر آتا ہے تو مسلمان خوش ہوتے ہیں کہ رمضان کے مہینہ کی آمد نے ان کو موقع دیا کہ وہ روزہ رکھ کر اپنے آپ کو اس کے ثواب کا مستحق بنائیں۔
اسی طرح ایک اور عظیم عبادت ہے جس کو شریعت میں صبر کہا گیا ہے۔ قرآن میں ہے کہ صبر کرنےوالوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا (39:10)۔ حدیث میں ہے کہ صبر سے زیادہ بہتر عطیہ کبھی کسی کو نہیں دیا گیا:وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ مِنْ عَطَاءٍ أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر1644)۔صبر ایک عبادت ہے، بلکہ تمام عبادتوں میں سب سے بڑی عبادت ۔
عصر کی نماز کا ثواب بہت زیادہ ہے، مگر آپ عصر کی نماز دو پہر کے وقت نہیں پڑھ سکتے۔ اسی طرح رمضان کے روزہ کے لیے غیر معمولی ثواب کی خوش خبری دی گئی ہے ۔ مگر یہ ثواب محرم کے مہینہ میں روزہ رکھ کر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہی معاملہ صبر کی عبادت کا بھی ہے۔ صبر کی عبادت صبر کے حالات میں انجام دی جاسکتی ہے ، غیر صا برانہ حالات میں صبر کی عبادت کی انجام دہی ممکن نہیں۔
صبر کا موقع کب پیش آتا ہے۔ صبر کا موقع اس وقت پیش آتا ہے جب کہ آپ کے ساتھ اشتعال انگیزی کی جائے ۔ آپ کے ساتھ برا برتاؤ کیا جائے۔ جب کوئی شخص ایسی بات کہے جس سے آپ کی انا پر چوٹ لگتی ہو۔ صبر پر عمل کرنے کا موقع ہمیشہ مخالفانہ حالات میں ہوتا ہے، نہ کہ موافقانہ حالات میں۔
صبر کے حالات پیش آنے پر اکثر لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔ وہ منفی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حالا نکہ اگر وہ شعوری طور پر جانیں کہ یہ تو ان کے لیے صبر کی عبادت کا موقع ہے تو وہ صبر کے وقت کا اسی طرح استقبال کریں جس طرح وہ نماز اور روزہ کے وقت کا استقبال کرتے ہیں۔
صبر کا موقع عبادت کا موقع ہے۔ ایسا موقع پیش آنے پر آدمی کو یقین کرنا چاہیے کہ وہ وقت آگیا جب کہ عبادتِ عظیم کا ثبوت دے کر وہ ثوابِ عظیم کا مستحق بن جائے۔