شکر ِقلیل، شکر ِکثیر
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ لَمْ يَشْكُرِ الْقَلِيلَ، لَمْ يَشْكُرِ الْكَثِيرَ(مسند احمد،حدیث نمبر18449)۔ یعنی، جو شخص کم پر شکر نہیں کرے گا، وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرے گا۔ اِس حدیثِ رسول میں فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ چھوٹے واقعے کو یاد کرنے سے بڑے بڑے واقعات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔
نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ میں بہت سے الگ الگ فولڈر (folder) ہوتے ہیں۔ مثلاً محبت کا فولڈر، نفرت کا فولڈر، اعتراف (acknowledgement)کا فولڈر، ظلم کا فولڈر، وغیرہ۔ جوچیزیں انسان کے تجربے اورمشاہدے میں آتی ہیں،اُن کو دماغ الگ الگ کرکے ان کے متعلق فولڈر میں ڈالتا رہتا ہے۔ آدمی جب کسی ایک واقعے سے متاثر ہو تو اُس وقت انسان کا دماغ ٹریگر (trigger) ہوجاتاہے اور پھر فوری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اُس سے متعلق (relevant) فولڈر کھل جاتا ہے اور اس نوعیت کے تمام واقعات آدمی کے ذہن میںتازہ ہوجاتے ہیں۔
فطرت کا یہ قانون شکر اور اعتراف کے معاملے میں بھی بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً آج آپ کو ایک موبائل ملا۔ اُس سے آپ نےکسی دوسرے مقام پر موجود ایک شخص سے بات کی۔ اُس وقت آپ نے سوچا کہ پہلے زمانے میں ایک آدمی کو کسی دوسرے پر موجود آدمی سے رابطہ قائم کرنے میں کتنی مشکلیں پیش آتی تھیں۔ اِس پر آپ نے گہرے تاثر کے ساتھ خدا کا شکر ادا کیا تو اس کے بعد فوراً یہ ہوگا کہ آپ کا دماغ ٹریگر ہوجائے گا۔ اُسی وقت دماغ کا وہ فولڈر کھل جائے گا، جس میں آپ کی پوری زندگی میں پیش آنے والے شکر واعتراف کے تمام آئٹم محفوظ ہیں۔فطرت کے اِس نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ شکر کے چھوٹے واقعے کی یاد، شکر کے دوسرے تمام واقعات کو یاد دلا دیتا ہے۔ اِس طرح شکر کا چھوٹا واقعہ بڑے شکر کا سبب بن جاتاہے، یہاں تک کہ آدمی کے دل میں شکر کا چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ شکر کا احساس خدا سے آدمی کے تعلق کو بڑھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اعلیٰ معرفت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔