دشمن سے سیکھنا
1949ء میں جاپانیوں نے اپنے یہاں ایک صنعتی سیمینار کیا۔ اس سیمینارمیں انہوں نے امریکا کے ڈاکٹر ایڈورڈ ڈیمنگ (Dr Edward Deming) کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلایا۔ ڈاکٹر ڈیمنگ نے اپنے لیکچر میںاعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ یہ کوالٹی کنٹرول (quality control) کا نظریہ تھا (ہندستان ٹائمس، 28 دسمبر 1986ء)۔
جاپان کے لیے امریکا کے لوگ دشمن قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان کو بدترین شکست اور ذلت سے دوچار کیا تھا۔ اس اعتبار سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ جاپانیوں کے دل میں امریکا کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکے۔ مگر جاپانیوں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منفی جذبات سے اوپر اٹھا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن ہواکہ وہ امریکی پروفیسر کو اپنے سیمینار میں بلائیں اور اس کے بتائے ہوئے فارمولاپر ٹھنڈے دل سے غور کر کے اس کو دل و جان سے قبول کر لیں۔
جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو پوری طرح پکڑ لیا۔ انہوںنے اپنے پورے انڈسٹری کو کوالٹی کنٹرول کے رخ پر چلانا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے صنعت کاروں (industrialist)کے سامنے بے نقص (zero-defect) کا نشانہ رکھا۔ یعنی ایسی پیداوار مارکیٹ میں لانا جس میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص نہ پایا جائے۔ جاپانیوں کی سنجیدگی اور ان کا ڈیڈیکیشن (dedication) اس بات کا ضامن بن گیا کہ یہ مقصد پوری طرح حاصل ہو۔ جلد ہی ایسا ہوا کہ جاپانیوںکے کارخانے بے نقص سامان تیارکرنے لگے۔ یہاںتک کہ یہ حال ہوا کہ برطانیہ کے ایک دکاندار نے کہا کہ جاپان سے اگر میں ایک ملین کی تعداد میںکوئی سامان منگائوں تو مجھ کو یقین ہوتا ہے کہ ان میں کوئی ایک چیز بھی نقص والی نہیں ہو گی۔ چنانچہ تمام دنیا میں جاپان کی پیداوار پر صدفی صد بھروسہ کیاجانے لگا۔
اب جاپان کی تجارت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ حتی کہ وہ امریکا کے بازار پر چھا گیا، جس کے ایک ماہر کی تحقیق سے اس نے کوالٹی کنٹرول کا فارمولا حاصل کیا تھا— اس دنیامیں بڑی کامیابی وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو ہر ایک سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں، خواہ وہ ان کا دوست ہو یا ان کا دشمن۔