ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
29 نومبر2002 کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ ایک صاحب نے کہا کہ صبر کا مطلب آپ برداشت بتاتے ہیں، یہ غلط ہے، صبر کا مطلب حوصلہ ہے۔
صبر کا ابتدائی لغوی مفہوم برداشت (patience)یا اپنے آپ کو روکنا ہے ۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں صبر کا مفہوم ان الفاظ میں بتایا گیا ہے : أَصْلُ الصَّبْرِ الْحَبْسُ ...الصَّبْرُ نَقِيْضُ الجَزَعِ (جلد4، صفحہ438)۔ یعنی، صبر کی حقیقت رکنا ہے... صبر کی ضد بے چینی اور جلدبازی ہے۔
جہاںتک حوصلہ (courage) کا تعلق ہے وہ بلا شبہ زندگی کی ایک اہم قدر ہے۔ زندگی میں برداشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور حوصلہ کی بھی۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کس کو کس کے تابع کیا جائے۔ حوصلہ کو برداشت کے تابع کیا جائے یا برداشت کو حوصلہ کے تابع ۔ اسی راز کو جاننے کا نام کامیابی ہے۔
میرے علم کے مطابق، تاریخ کی بیشتر تباہیاں، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، اس لیے ہوئی ہیں کہ لوگوں نے حوصلہ کو اوپر کردیا اور برداشت کو نیچے۔اور اپنے حوصلہ مندانہ جذبات کے تحت ایک ایسا اقدام کر ڈالا جو ان کی حقیقی استطاعت (manageable limit) سے باہر تھا۔ چنانچہ ان کا نتیجہ ایسے شخص کا سا ہوا جو کسی ندی کے دہانہ کے نصف کے بقدر چھلانگ لگانے کی طاقت رکھتا ہو مگر وہ پورے دہانے کے اوپر چھلانگ لگا دے۔
کوئی صورت حال پیش آنے پر آدمی اگر ایسا کرے کہ وہ حوصلہ مندانہ چھلانگ سے اپنے آپ کو روکے اور برداشت کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے صورت موجودہ پر قائم رہے تو وہ خواہ بروقت کوئی بڑا فائدہ حاصل نہ کرسکے مگر وہ مزید نقصان سے یقینا بچ جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ حوصلہ جذبات کا نتیجہ ہوتا ہے اور برداشت سوچ کا نتیجہ۔جذبات کے تحت کیا ہوا اقدام اکثر آخر کار آدمی کے لیے ایک پر سٹیج اشو (prestige issue) بن جاتا ہے۔وہ چاہتے ہوئے بھی اپنا قدم واپس لینے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کو حوصلہ جس انجام تک پہنچاتا ہے وہ صرف بے حوصلگی ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں اصل اہمیت سوچ کی ہے۔ جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو فطری طورپر آدمی کے اندر سوچ کا عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ حوصلہ مندانہ اقدام اکثر اس سو چ کے عمل کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رہنے دیتا۔ اس کے برعکس، برداشت کی صفت آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ سوچ کا عمل اس کے اندر بلا رکاوٹ مسلسل جاری رہے۔ برداشت کی حیثیت سوچ کے عمل کے لیے ایک معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ برداشت کی بنا پر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاملہ پر زیادہ دیر تک سوچ سکے اور پھر زیادہ صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے۔
26 دسمبر2002،نئی دہلی دعا گو:وحید الدین