غلط فہمی
یہ 13 مارچ 2002ء کا واقعہ ہے۔ نئی دہلی کے کیٹ آفس (CAT office)میں ڈاکٹرشمس الآفاق صاحب اپنے کام سے گئے ہوئے تھے۔ وہاں حسب معمول دوسرے بہت سے لوگ تھے۔ ایک آدمی ان کے سامنے تھا۔ ڈاکٹر صاحب آگے جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا کہ مجھے راستہ دے دو۔ آفس میں اپنے کام سے فارغ ہوکر جب وہ نکلے تو گیٹ کے باہر دو آدمی کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک وہی شخص تھا جس کی پیٹھ پر ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ رکھا تھا۔ اور دوسرا اس کا ساتھی تھا۔ دونوں صورت سے جاٹ معلوم ہوتے تھے۔
مذکورہ آدمی نے جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کو دیکھا وہ اچانک بگڑ گیا۔ وہ نہایت اشتعال انگیز لہجہ میں ان کو برا بھلا کہنے لگا۔ حتیٰ کہ اس نے کہا کہ راجند ر، تم کیا سمجھتے ہو، میں تم کو گولی مار دوں گا۔ ڈاکٹرشمس الآفاق صاحب اعراض کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اب تک بالکل خاموش تھے۔ جب اس آدمی نے راجندر کا نام لیا تو انہوں نے فوراً محسوس کیا کہ یہ غلط فہمی کا معاملہ ہے۔ ابھی وہ چپ ہی تھے کہ ان کے ساتھی مسٹر اشوک کمار نے کہا کہ بھائی، تم کو غلط فہمی ہوئی ہے، یہ تو ڈاکٹر شمس الآفاق ہیں۔ اور یہ فلاں سرکاری محکمہ میں افسر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس آدمی کو یقین نہیں آیا۔ شاید اس کے مفروضہ راجندر کی صورت ڈاکٹر صاحب سے کچھ ملتی جلتی تھی۔ اس کی طلب پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی جیب سے اپنا آئڈنٹٹی کارڈ نکالا اور اس آدمی کو دکھایا۔ آئڈنٹٹی کارڈ کو دیکھتے ہی وہ ایسا ہوگیا جیسے پھولے ہوئے غبارہ کی ہوا اچانک نکل گئی ہو۔اور پھر وہ سر جھکا کر خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔
اس واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کے خلاف بُرا برتاؤ کرے تو فوراً اس کو اپنا دشمن نہ سمجھ لیجیے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے برے برتاؤ کا سبب اس کی غلط فہمی ہو۔ اگر آپ صبر و اعراض کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس سے نرمی کا معاملہ کریں تو عین ممکن ہے کہ آپ کی صحیح تصویر کو جاننے کے بعد اس کا رویہ بالکل بدل جائے۔ گولی مارنے کی بات کرنے والا آدمی آپ کو پھول کی پیش کش کرنے لگے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ بے صبری کا انداز آدمی کے نفس امارہ کو جگاتا ہے۔ اس کے برعکس، صبر کا انداز اس کے نفس لوّامہ کو جگا دیتا ہے۔ نفس امّارہ کا جاگنا آدمی کوآپ کا دشمن بنا دیتا ہے، اور نفس لوّامہ کا جاگنا آدمی کو آپ کا دوست بنا دیتا ہے۔انسانی زندگی میں غلط فہمی پیدا ہونا ایک عام بات ہے۔ کسی بھی شخص کو کسی بھی شخص کے خلاف غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لیے غلط فہمی پیدا ہونا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں۔ جرم یہ ہے کہ غلط فہمی پیدا ہونے کے بعد وہ درست رویہ اختیار نہ کرے۔
اگر کسی شخص کو کسی کے خلاف غلط فہمی پیدا ہوجائے تو صرف غلط فہمی کی بنیاد پر اسے مان نہیں لینا چاہیے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ معاملہ کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بعد اگر وہ بات غلط ثابت ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ اس کو مکمل طورپر اپنے دل سے نکال دے۔ غلط فہمی کی تحقیق سے پہلے اس کا چرچا کرنا سخت گناہ ہے۔ ایک آدمی کسی کے بارے میں تحقیق کے بغیر بھلی بات تو کہہ سکتاہے مگر تحقیق کے بغیر بری بات کہنا سر تا سر حرام ہے۔ ایسی روش پر اللہ کے یہاں سخت پکڑ کا اندیشہ ہے۔
خدا کا پسندیدہ معاشرہ وہ ہے جس میں لوگوں کے باہمی تعلقات حسن ظن کی بنیاد پر قائم ہوں۔ کسی کے بارے میں کوئی بری بات معلوم ہو تو تحقیق کے بغیر ہی اس کو رد کر دیا جائے۔ اس قسم کی باتیں براہِ راست طور پر آخرت سے تعلق رکھتی ہیں۔حدیث میں آیا ہے کہ جو آدمی لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے، خدا آخرت میںاس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔ دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا ایک قسم کی عملی دعا ہے۔ ایسا آدمی گویا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ خدایا، میں نے تیرے بندوں کے ساتھ بہتر معاملہ کیا، تو بھی میرے ساتھ بہتر معاملہ فرما، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔