صبر: نفسیاتی قربانی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کی اکثریت نے آپ کا انکار کیا۔ تاہم ان کے کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے۔ ان مومنین کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے:جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جب وہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے ۔ بے شک یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے۔ ہم تو پہلے ہی سے اس کو ماننے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں کہ ان کو ان کا اجر دُہرا دیا جائے گا اس پر کہ انھوں نے صبر کیا(28:52-54)۔
یہاںصبر سے مراد نفسیاتی صبر یا نفسیاتی قربانی ہے ۔ مذکورہ اہل کتاب(عبد اللہ بن سلّام، وغیرہ)نے جس ایمان کا ثبوت دیا، وہ نفسیات کی سطح پرصبر کی قربانی کے بغیر کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔
ارشاد ہوا ہے کہ ان کو دُہرا اجر دیا جائے گا۔ ایک اس بات پر کہ انھوں نے اپنی کتاب پر ایمان رکھا۔ اور دوسرا اس بات پر کہ وہ قرآن پر ایمان لائے:مرة على إيمانهم بكتابهم، ومرةً على إيمانهم بالقرآن(صفوۃ التفاسیر، جلد2، صفحہ403)۔
پہلا ایمان ان کو اس’’صبر‘‘کی قیمت دینے پر ملا کہ انھوں نے اپنے آپ کو قومی دین سے اوپر اٹھایا اور پیغمبرانہ دین کا حامل بننے کا ثبوت دیا جو قومی روایات میں گم ہو چکا تھا۔ دوسرے، ایمان کے لیے ان کو اس’’صبر‘‘کی قیمت دینی پڑی کہ انھوں نے ایک ’’اجنبی دین‘‘کو پہچانا اور تمام مصلحتوں کو نظر انداز کر کے اس کا ساتھ دیا۔ اس دوگونہ صبر پر وہ دُہرا اجر کے مستحق قرار پائے۔
حقیقی ایمان کسی آدمی کو اس وقت ملتا ہے، جب کہ وہ اپنے آپ کو حالات سے اوپر اٹھانے کے لیے تیار ہو۔ اس کے لیے آدمی کو اپنی قوم سے کٹنا پڑتا ہے۔ اکابر کی حمایت سے محرومی کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ ظواہر سے بلند ہو کر حقائق کو دیکھنا پڑتا ہے۔ مفادات کونظر انداز کر کے اصول کو اپنار ہنما بنانا پڑتا ہے۔
یہ ایک بے حد سخت امتحان ہے۔ غیر معمولی نفسیاتی قربانی کے بغیر اس درجہ پر پہنچا ممکن نہیں۔ اس نفسیاتی صبر کے بغیر کوئی شخص حق کو نہیں پا سکتا اور نہ اعلیٰ ایمانی ترقی حاصل کر سکتا ۔