پریکٹکل وزڈم
اجتماعی زندگی کبھی یکساں نہیں ہوتی۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ مختلف قسم کے مسائل پیش آتے ہیں۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے کی طرف سے ایسا تجربہ پیش آئے گا، جو اس کی مرضی کے خلاف ہوگا۔ ایسے موقع پر ہمیشہ یہ عقل کی بات ہوتی ہے کہ آدمی کم پر راضی ہوجائے۔ آئڈیل کی مانگ کرنا، عملاً اس نتیجے تک پہنچنا ہے کہ جو ممکن ہے، وہ بھی نہ ملے، اور زیادہ تو ملنے والا ہی نہیں تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ اِس دنیا میں ا جتماعی اختلافات کبھی معیار (ideal) کی بنیاد پر طے نہیں ہوتے۔
عام طور پر انسان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ متاثر ذہن (conditioned mind)سے سوچنے کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں لے پاتا۔ وہ چیزوں کو ان کے فیس ویلو (face-value) پر لیتا ہے۔جہاں انتظار کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے، وہاں وہ جلد بازی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جہاں پر امن تدبیر کے ذریعہ مسئلہ حل کرنا چاہیے، وہاں وہ تشدد کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ جہاں رد عمل (reaction) سے بچ کر اپنا منصوبہ بنانا چاہیے، وہاں وہ ری ایکشن کا شکار ہوکر ایسا منصوبہ بناتا ہے، جو مسائل میں صرف اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اسے اس کا مطلوب آئڈیل کی بنیاد پر حاصل ہو۔اس بنا پر وہ ایسا کرتا ہے۔ مگر یہ طریقہ وزڈم کے خلاف ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ چیزوں کو نتیجے کے اعتبار سے دیکھے۔ اس طرح مسئلہ کسی مزید دشواری کے بغیر بہ آسانی حل ہوجائے گا۔
اس دنیا میں اختلاف کے معاملے میں آپشن دو بہتر کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ چھوٹے شر (lesser evil)اور بڑے شر (greater evil)کے درمیان ہوتا ہے۔اسی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیر الشرین کہا ہے(العقد الفرید، جلد2، صفحہ109-110)، یعنی عقل مند وہ ہے، جو دو برائیوں (evils) میں سے کمتر بُرائی (شر)کو پہچانے۔ اگر آدمی چھوٹے شر پر راضی نہ ہو تو اس کے بعد اس کو جس چیز پر راضی ہونا پڑتا ہے، وہ بڑا شر ہے۔اس حقیقت کو صحابی رسول عمیر بن حبیب بن خماشہ اس طرح بیان کیا ہے: جو شخص نادان کی طرف سے پیش آنے والے چھوٹے شر پر راضی نہیں ہوگا، اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 2258)۔
اختلاف کے وقت دانش مند آدمی کے لیے پہلا آپشن کیا ہوتا ہے۔ وہ یہ ہےکہ فریقِ ثانی کی شرطوں کو قبول کرتے ہوئے اس سے صلح کرلی جائے۔پیغمبر اسلام کی یہی سنت رہی ہے۔ اسی سنت کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا۔ کتاب سے مراد قرآن ہے، اور حکمت سے مراد وہی چیز ہے، جس کو پریکٹکل وزڈم کہا جاتا ہے ۔
پریکٹکل وزڈم کی وجہ سے آپ کو ملنے والی چیز ابتدا میں بہ ظاہر کم نظر آتی ہے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بہت سے صحابہ کو لگا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731)۔ لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے وہ ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آئڈیل وزڈم نتیجے کے اعتبار سے بے فائدہ ٹکراؤ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، پریکٹکل وزڈم غیر ضروری نقصان سے بچا کر کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔پریکٹکل وزڈم ہمیشہ آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ اس کو اسٹارٹنگ پوائنٹ مل جائے۔ اسٹارٹنگ پوائنٹ سے آغاز کرکے آدمی زیادہ کو پاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی اصول پر مبنی تھی۔