غلطی کا اعتراف
میں نے ایک صاحب سے کہا کہ اگر کسی معاملے میں آپ دیکھیں کہ ننانوے فیصد غلطی فریقِ ثانی کی ہے اور صرف ایک فیصد غلطی آپ کی ہے تب بھی آپ یہ مان لیجیے کہ ساری غلطی آپ ہی کی ہے۔ آپ کھلے طورپر فریقِ ثانی سے کہہ دیجیے کہ آپ صحیح ہیں، میں ہی غلطی پر تھا:
You are right, I was wrong.
اعتراف کی اِس روش کا فائدہ صرف یہ نہیں ہے کہ نزاع فوری طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا اس سے بھی زیادہ بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی یہ روش آپ کے ذہنی اور روحانی ارتقاء میں مددگار بنتی ہے۔
میرے تجربے کے مطابق، معروف قسم کی متصوّفانہ ورزشوں کا کوئی تعلق تزکیۂ روحانی سے نہیں۔ تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف ہے۔ حضرت عمر کے اندر اپنی غلطی کے اعتراف کا مادہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ مبالغہ آمیز طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے تھے۔ مثلاً وہ کہتے کہ : لولا فلان لہلک عمر(اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا)۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا تزکیہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر حقیقی تواضع کی صفت پیدا ہو۔ اس کے اندر سے کبر کا مزاج نکل جائے۔ غلطی کے اعتراف کا مزاج آدمی کے اندر یہی اعلیٰ صفت پیدا کرتا ہے۔ تزکیہ کا سب سے بڑا کورس یہی ہے۔
ایک صاحب سے گفتگو کے دوران میں نے خلیفۂ دوم عمر فاروق کے ایک قول کا حوالہ دیا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّهُ لَا يَصْلُحُ لِهَذَا الأَمْرِ إِلَّا قَوِيٌّ في غَيْرِ عُنْفٍ، لينٌ فِىغَيْرِ ضَعْفٍ، جَوَادٌ في غَيْرِسَرَفٍ، مُمْسِكٌ فِى غَيْرِ بُخْلٍ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد6، صفحہ330)۔ یعنی، اس کام کا اہل صرف وہی شخص ہے جو شدید ہو بغیر اکڑ کے، نرم ہو بغیر کمزوری کے، سخی ہوو بغیرفضول خرچی کے، مال روکنے والا ہو بغیر بخل کے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کوئی بڑا کام کرنے کےلیے اہل صرف وہ شخص ہوتا ہے جو مجموعۂ تضادات (mixture of opposites) ہو۔ مثلاً نہایت اعلیٰ ذہن کا حامل ہونے کے باوجودوہ آخری حد تک متواضع (modest) ہو۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ عالم حقائق (universe of facts) اتنا زیادہ وسیع ہے کہ کبھی کوئی شخص اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر حقائق کا ادراک کرنے کے لیے صرف اعلیٰ ذہن کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ کامل تواضع لازمی طورپر ضروری ہے۔ کامل تواضع اس بات کی ضمانت ہے کہ اس کے لرننگ پراسس (learning process) پر کوئی فُل اسٹاپ نہ آئے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ کِبر، تعلّم (learning)کے عمل کو روک دیتا ہے۔ اِس کے برعکس،تواضع تعلّم کے عمل کو مسلسل طورپر جاری رکھتا ہے۔میں اپنے تجربے سے یہ سمجھتا ہوں کہ ذہنی ارتقاء کے لیے سب سے زیادہ ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی ہر لمحہ یہ کہنے کے لیے تیار ہو کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
غلطی کو فوراً مان لینا، آدمی کے علم میںاضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج نہ ہو وہ ذہنی جمود کا شکار ہوجائے گا، اس کے اندر ذہنی ارتقاء کا سفر کبھی جاری نہیں رہ سکتا۔
اعتراف کے ذریعے فکری ارتقاء کا جاری رہنا کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ بلکہ وہ ایک معلوم بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کا دماغ مختلف معلومات کا جنگل ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی کنفیوژن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرکے دیکھ نہیں پاتا۔ یہ چیز آخر کار آدمی کو تشکیک تک لے جاتی ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ جب بھی مطالعہ یا ڈسکشن کے درمیان آدمی پر یہ واضح ہوکہ اس کے دماغ میں فلاں بات جو پڑی ہوئی ہے وہ غلط ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اسی وقت کھلے طورپر اس کو مان لے کہ میں اِس معاملے میں غلطی پر تھا۔ اسی کا نام اعتراف ہے۔
اِس اعتراف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن میں کرکشن اور تصحیح کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ایک غلط بات جو اس کے ذہن میں صحیح بات کی حیثیت سے موجود تھی اب اس کا ذہن غلط مان کر اس کو غلطی کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے وہ صحیح کے خانے میں پڑی ہوئی تھی۔ عام حالت میں یہ ہوتا ہے کہ صحیح آئٹم اور غلط آئٹم دونوں انسان کے دماغ میں ملے جُلے رہتے ہیں۔ غلطی ماننے کا مزاج یہ کرتا ہے کہ جو بات صحیح ثابت نہ ہو اس کو غلط کے خانے میں ڈالتا رہتا ہے، اِس طرح وہ اِس کنفیوژن سے باہر آجاتا ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق نہ کرے اور دونوں کو یکساں طورپر درست سمجھتا رہے۔
غلطی کو نہ ماننا کوئی سادہ بات نہیں۔ غلطی کو نہ ماننے کی نفسیات ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے کِبر کے مزاج کو توڑنا نہیں چاہتا۔ کبر دوسرے لفظوں میں خود پسندی کا نام ہے۔اپنی خود پسندی کی حفاظت میں آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ اِس طرح فرضی طورپر وہ اپنے آپ کو اِس جرم میں مبتلا رکھتا ہے کہ میں درست ہوں، میرے اندر کوئی غلطی نہیں۔ بظاہر آدمی اپنی اِس خود پسندی کی حفاظت کرکے خوش ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ حالاں کہ وہ اپنے کو تباہی کے غار میں ڈال رہا ہوتا ہے۔ اپنے اِس عمل کی اس کو یہ بھیانک قیمت دینی پڑتی ہے کہ اس کا علمی اور روحانی ارتقاء رُک جائے اور وہ معرفت کے اعلیٰ تجربے سے محروم ہو کر رہ جائے۔
معرفت تواضع کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ تواضع نہیں تو معرفت بھی نہیں۔ اور سچی تواضع کی علامت یہ ہے کہ آدمی کسی تحفظِ ذہنی کے بغیر حق کا کھلا اعتراف کرے۔ وہ بے اعترافی کا تحمل نہ کرکے حق کے آگے ڈھہ پڑے۔ جو شخص سچائی کا اعتراف نہیں کرتا وہ عملاً اِس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ حق سے اوپر ہے۔ سچائی اِس دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے۔ ایک شخص کے سامنے جب سچی دلیل آئے اور وہ اس کو نظر انداز کردے تو گویا اس نے خدا کو نظر انداز کردیا۔ ایسے لوگوں کے لیے خدا کے یہاں ابدی محرومی کے سوا اور کوئی انجام مقدر نہیں۔
قرآن میں آیا ہے:وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ(34:13)۔یعنی میرے بندوںمیں بہت کم ہیں جو شکر کرنے والے ہیں۔شکر کیا ہے ۔ شکر در اصل وہ چیز ہے جس کو اعتراف (acknowledgement) کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتراف سب سے بڑی عبادت ہے۔ ایک طرف خدا کی نعمتوں کا اعتراف اور دوسری طرف انسان کے مقابلے میں اعتراف۔ یہ دوچیزیں گویا دین کا خلاصہ ہیں۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ اعتراف کے وقت اعتراف نہیں کرتے یا دل سے تو مان لیتے ہیں مگر زبان سے بول کر وہ اپنی غلطی کا اعتراف ضروری نہیں سمجھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہ سمجھنا کہ ہم نے دل سے تو مان لیا ہے زبان سے بولنے کی کیا ضروت ۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اعتراف نہیں ہے بلکہ منافقت ہے۔ جب آدمی قلبی اعتراف کے باوجود زبان سے کھُلے طورپر اس کا اظہار نہ کرے تو یہ بے اعترافی ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ بے اعترافی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی دوسروں کے سامنے یہ ظاہر نہیںکرنا چاہتا کہ وہ اِس معاملے میں بے خبر تھا۔
ٹھیک یہی نفسیات اُس انسان کی ہوتی ہے جو دل میں محسوس کرنے کے باوجود زبان سے بول کر اس کا اظہار نہ کرے۔ یہ نہ بولنا بھی اسی لیے ہوتا ہے کہ آدمی اپنی پوزیشن کو بچانا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اِس بات کو جان لیں کہ وہ اب تک بے خبری کا شکار تھا، یا اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے، یا اس نے ایسی کوئی غلطی کردی جس کی اُسے تصحیح کرنا چاہیے۔
آدمی جب معاملے کی وضاحت کے باوجود اعتراف نہیں کرتا تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرکے وہ اپنی پوزیشن کو گھٹا لے گا، دوسرے کے مقابلے میں اس کی برتری باقی نہ رہے گی۔ یہ نفسیات مکمل طورپر شیطانی نفسیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب شیطان کو حکم دیا کہ وہ آدم کے آگے جھُکے تو یہ اعتراف ہی کا ایک معاملہ تھا۔ مگر شیطان نے اِس اعتراف سے انکار کیا، اُس نے کہا کہ میں آدم سے برتر ہوں:أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ(7:12)۔
جب بھی کوئی آدمی بے اعترافی کا مظاہرہ کرے تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی بڑائی کے احساس میں جی رہا ہوتا ہے۔ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے وہ اعتراف نہیں کرتا۔ حتی کہ اگر اس کا دل یہ محسوس کرلے کہ اِس معاملے میں میں غلطی پر ہوں تب بھی وہ زبان سے اِس کا اظہار نہیں کرنا چاہتا تاکہ ظاہری طورپر اس کی پوزیشن برقرار رہے ۔ اس کی پوزیشن پر کوئی حرف نہ آئے۔
یہ بلا شبہ بہت بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی سچائی کے لیے اپنے آپ کو جھُکا لے اُسی کو اس دنیا میں سرفرازی ملتی ہے، اور جو آدمی اپنے جھوٹے بچاؤ کے لیے کھُلے اعتراف سے پرہیز کرے وہ حقیقت کی نظر میں اپنے آپ کو نیچے گرالیتا ہے۔ حتی کہ خود اپنے ضمیر کے سامنے بھی وہ چھوٹا بن جاتا ہے۔
غلطی کا اعتراف ایک اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔ غلطی کا اعتراف دراصل اپنی تواضع کو ثابت شدہ بنانا ہے۔ جس شخص کے اندر غلطی کے اعتراف کا مزاج نہیں وہ یقینی طور پرتواضع سے بھی خالی ہوگا۔ اورتواضع کے بغیر کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو غلطی کا اعتراف نہیں کریں گے۔ یا اپنے دل کے اندر غلطی کو محسوس کرکے یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے غلطی کا اعتراف کرلیا۔ حالاں کہ غلطی کا ماننا وہی معتبر ہے جب کہ آدمی زبان سے بول کر اس کا کھُلااقرار کرے۔ دل میں غلطی کو محسوس کرنا اور زبان سے اس کا کھُلا اعتراف نہ کرنا منافقت کی علامت ہے۔ ضمیر ہر انسان کے اندر ہے، اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ منافق انسان بھی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ اس معاملے میں مجھ سے غلطی ہوئی۔لیکن وہ زبان سے الفاظ کی صورت میں اس کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، مؤمن کا طریقہ یہ ہے کہ جب اس کی غلطی اس پر واضح ہوجاتی ہے تو وہ فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے غلطی کی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق غلطی کے احساس کے بعد فوراً بول پڑتے تھے۔مثلاً ایک بار انھوں نے کہاکہ :
أَصَابَتِ امْرَأَةٌ وَأَخْطَأَ عُمَرُ۔ اور كُلُّ النَّاسِ أَفْقَهُ مِنْكَ يَا عُمَرُ!(تفسیر القرطبی، جلد5، صفحہ 99)۔ یعنی، ایک عورت نے صحیح کہا، اور عمر نے غلطی کی۔ اے عمر، ہر آدمی تجھ سے زیادہ جانتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دل میں غلطی کو محسوس کرنا اور زبان سے بول کر اس کا اظہار نہ کرنا منافقانہ روش ہے۔ اور دل میں غلطی کا احساس پیدا ہوتے ہی زبان سے بول کر لفظوں میں اس کا کھُلا اعتراف کرنا مؤمنانہ روش۔