کوئی دشمن نہیں
پچھلے زمانے میں کوئی کسی کا دوست ہوتا تھا ، اور کوئی کسی کا دشمن۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ اب کوئی نہ کسی کا دوست ہے، اور نہ کوئی کسی کا دشمن۔ اب ہر آدمی پرو سیلف (pro-self)ہے۔ ہر آدمی کا ایک ہی کنسرن (concern)ہے۔ اور وہ اس کا اپنا انٹرسٹ ہے۔ آج کا انسان اپنے انٹرسٹ میں اتنا گم ہے کہ اس کو کسی اور کے خلاف سوچنے کی فرصت نہیں۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا فرق کا سبب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مواقع (opportunities)بہت محدود ہوتے تھے۔ مواقع پر ایک مراعات یافتہ طبقہ (privileged class) کا قبضہ ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں اصولی طور پر یہ صورتِ حال ختم ہوگئی ہے۔ اب تمام مواقع ہر آدمی کے لیے کھل گئے ہیں۔ اس لیے ہر آدمی اپنے انٹرسٹ کے لیے دوڑ رہا ہے۔ ذاتی انٹرسٹ کے اس دوڑ میں کسی کے پاس دوسرے کے خلاف سوچنے کا وقت نہیں۔ کسی کے پاس دوسرے کے خلاف دشمنی اور سازش کرنے کا وقت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دشمنی کا لفظ دور جدید کی ڈکشنری سے عملاً حذف ہوچکا ہے۔ اب اگر کوئی کسی کا دشمن بنتا ہے تو وہ اس وقت بنتا ہے جب کہ اس کو’’پتھر‘‘ مار کر اس کو مشتعل کردیا جائے۔ اگر آپ آبیل مجھے مار کی سیاست اختیار کرکے کسی کے ایگو (ego)کو چھیڑ دیں تو وہ ضرور آپ کو سینگ مارے گا۔ اگر آپ مکمل طور پر پر امن بن جائیں تو کوئی شخص نہ آپ کا دشمن ہوگا، اور نہ کوئی شخص آپ کے خلاف سازش کرے گا۔
ایک حدیث رسول موجودہ زمانے میں مزید اضافہ کے ساتھ صادق آتی ہے:الْفِتْنَةُ نَائِمَةٌ لَعَنَ اللهُ مَنْ أَيْقَظَهَا(کنز العمال، حدیث نمبر 30891)۔ یعنی، فتنہ سویا ہوا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو جو اس کو جگائے— ہوش مندی کے ساتھ زندگی گزاریے، اور پھر آپ کو کسی سے دشمنی کا تجربہ نہ ہوگا۔