صبر کیا ہے
دنیا کے خالق نے اس دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں صبر کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا (الفرقان، 25:20)۔ صبر کیا ہے؟ صبر عمل کا الٹانہیں ہے،بلکہ صبر عاجلانہ کارروائی کا الٹاہے۔صبر کے لفظی معنیٰ ہیں رکنا۔ عربی میں کہتے ہیں: صبرتُ الدابّۃ (میں نے جانور کو چارے سے روک دیا)۔صبر انسان کے اندر اعتدال پیدا کرتا ہے۔ صبر انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ وہ غیرضروری طور پر اپنی طاقت کو ضائع کرے ۔ صبر انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اختلاف کوٹکر اؤ تک نہ جانے دے ۔ صبر متحدہ جدو جہد کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر مایوسی کو اُمید میں تبدیل کرتا ہے۔ صبر آدمی کے اندر یہ پختگی (maturity)پیدا کرتا ہے کہ جو چیز یں بدلنے کے قابل ہیں، اُن کو وہ بد لے اور ان چیزوں کے ساتھ وہ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ کرے جن کو و ہ بدل نہیں سکتا۔
شریعت میں جس صبرکا حکم دیا گیا ہے،اس کی حقیقت اسی سے سمجھی جاسکتی ہے۔قرآن میں مومن کی صفات میں سے ایک صفت یہ بتائی گئی ہے:وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِم (13:22)۔اور جو لوگ صبر کرتے ہیں اللہ کی رضا چاہنے کے لیے۔ دوسرے لفظوں میں اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ اصولی بنیاد پر صبر کرتے ہیں۔ جب آدمی کو ٹھیس لگے اور وہ اللہ کی رضا کی خاطر صبر کر لے تو گویا اُس نے اصولی بنیاد پر صبر کیا۔ مجبوری کے تحت تو ہر آدمی صبر کر لیتا ہے، مگر مومن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت اِس لیے صبر کرتا ہے کہ یہی اُس کے اصول کا تقاضا ہے۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَی (صحیح البخاری، حدیث نمبر1283)۔ صبر وہ ہے جو ابتدائے صدمہ کے وقت کیا جائے۔