شکر گزاری، سرکشی

ابو امامہ سے روایت ہے کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے ليے دعاکیجيے کہ خدا مجھے ما ل دے دے۔ آپ نے فرمایا: تھوڑے مال پر شکر گزار ہونا اس سے بہتر ہے کہ تم کو زیادہ مال ملے اور تم شکر ادا نہ کرسکو:عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ ثَعْلَبَةَ بْنَ حَاطِبٍ الْأَنْصَارِيَّ، أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ اللهَ أَنْ يَرْزُقَنِي اللهُ. قَالَ:وَيْحَكَ يَا ثَعْلَبَةُ، ‌قَلِيلٌ ‌تُؤَدِّي ‌شُكْرَهُ خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ لَا تُطِيقُهُ( المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7873)۔

خدا کسی انسان کو دولت دے تو اس کو خدا کا شکرگزار بندہ بن کر رہنا چاہیے۔ لیکن اگر ذہن صحیح نہ ہو تو دولت مندی آدمی کے لیے سرکشی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ذہن صحیح ہے تو مفلسی میں بھی آدمی خدا کو نہیں بھولتا۔ جو کچھ ملا ہے اس پر قانع رہ کر وہ امید رکھتا ہے کہ اس کا خدا اس کو مزید دے گا۔

آدمی اگر آنکھ کھول کر دنيا ميں رہے تو کبھی وہ سرکشی میں مبتلا نہ ہو۔ انسان ایک حقیر وجود کی حیثیت سے پرورش پاتا ہے۔ اس کو حادثات پیش آتے ہیں۔ اس کو بیماری اور بڑھاپا لاحق ہوتاہے۔ پانی اور دوسری چیزیں جن کے ذریعہ وہ اس دنیا میں اپنا ’’باغ‘‘ اگاتاہے ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے ذاتی قبضہ میں نہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ آدمی متواضع بن کر دنیا میں رہے۔

اللہ نے جو کچھ انسان کو دیا ہے، خواہ وہ زرعی پیداوار کی صورت میں ہو یا دوسری صورت میں، سب کا سب رزق ہے۔ آدمی اگر ان چیزوں کو خدا کا دیا ہوا سمجھے اور خداکے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ان میں تصرف کرے تو اس کے اندر خدا کے شکر کا جذبہ ابھرے گا۔ مگر شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہتاہے کہ وہ اس نسبت کو بدل دے، تاکہ اس ’’رزق‘‘ کے استعمال کے وقت آدمی کو خدائی یاد نہ آئے بلکہ دوسری چیزوں کی یاد آئے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom