ایک خط
برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
مہاراشٹر کے سفر کے دوران 27 نومبر 2003 کو میں ناگپور پہنچا تھا۔ 29 نومبر کو واپسی ہوئی۔ اس دوران کئی قیمتی قسم کے سبق آموزتجربے ہوئے۔آپ ان تجربات کا ذریعہ بنے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
۱۔ آپ نے ناگپور شہر دکھایا۔ چار سال پہلے میں ناگپور آیا تھا۔ اب اس سفر میں اندازہ ہوا کہ اس مدت میں ناگپور شہر کے اندر بہت سی ترقیاں ہوئی ہیں۔ وہاں کی سڑکیں چوڑی کی گئی ہیں۔ صفائی کا خصوصی اہتمام ہے۔ ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ اس ترقیاتی کام سے ہر فرقہ کو غیر معمولی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ترقی کے سلسلہ میں اصل اہمیت اچھے انفراسٹرکچر کی ہوتی ہے اور ناگپور کے لوگوں کو یہی چیز حاصل ہوئی۔
معلوم ہوا کہ یہ سارا کام ایک کمشنر نے انجام دیا ہے۔ اس نے نہایت حکمت کے ساتھ متعلقہ ذمہ داروں کو اپنے ساتھ لیا اور عوام کی تائید حاصل کی۔ اس کام کے لیے ورلڈ بینک سے مالیاتی امداد ملی تھی۔ اس طرح تین سال کی قلیل مدت میں ناگپور کا نقشہ بدل گیا۔ ضرورت ہے کہ ہندستان کے ہر شہر میں اسی طرح انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ یہی قومی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر ترقی کی طرف دوڑنا چاہتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اُس کو کھلا راستہ فراہم کردیا جائے۔
2۔ میں اس سے پہلے کئی بار ناگپور گیا ہوں ۔ مگر ایک بات کا مجھے اب تک اندازہ نہ ہو سکا تھا۔ آپ نے اس باراسے دکھایا۔ وہ یہ کہ ناگپور میں وہاں کے مسلمانوں کا ایک ایجوکیشنل ایمپائر موجود ہے۔ انجمن حامیٔ اسلام کے تحت قائم شدہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اسی کا حصہ ہیں جس کے موجودہ صدر جناب جسٹس ایم ایم قاضی ہیں۔ یہ سب چیزیں بلا شبہ خوشی کا باعث تھیں۔
3۔ ایک اور قابل ذکر چیز جو میں نے اس سفر میں پائی وہ خود آپ کی فیملی تھی۔ میں نے پایا کہ آپ کی فیملی میں ساس اور بہو جیسے جھگڑے نہیں ہیں۔ آپ کی فیملی ایک پرسکون فیملی ہے۔ آپ کی اہلیہ سے میں نے پوچھا تھا کہ کامیاب خاندانی زندگی کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ:صبرو برداشت۔ میں سمجھتا ہوں کہ کامیاب خاندانی زندگی گزارنے کے لیے یہی واحد کارگر فارمولا ہے۔
4۔ چوتھی چیز وہ ہے جو آپ کے صاحب زادہ زبیر احمد اکبانی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے کاروبار کو مینجیبل لمٹ (Manageable limit)کے اندر رکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے ہم نے یہ فیصلہ لیا ہے ہم کو ذہنی سکون بھی ملا ہے اور کاروباری ترقی بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فارمولا ہر کاروباری آدمی کے لیے یکساں طور پر مفید ہے۔
5۔ آپ کے گھر کی دیوار پر ایک قرآنی آیت لکھی ہوئی نظر آئی:هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ (27:40)میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر لوگ جب گھر بناتے ہیں تو وہ اپنے گھر پر اس آیت کا صرف ایک حصہ(هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي) لکھتے ہیں۔ آپ نے اس کے برعکس پوری آیت لکھی ہے۔آیت کا صرف ایک حصہ لکھنا قرآن کے اصل مفہوم کو واضح نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق، گھر یا مادّی نفع جو اس دنیا میں کسی کو ملتا ہے وہ نوازش کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ جانچ کے طور پر ہوتا ہے۔ اس دنیا میں ہر مادی چیز امتحان کا ایک پرچہ ہے ۔اُس کے ذریعہ خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آدمی اُس کو پا کر خدا کا شکر گزار بنایا وہ سرکش ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پر خدا کا یہ سب سے بڑا حق ہے کہ وہ ہر ملی ہوئی چیز کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اُس پر اس کا شکر ادا کرے۔ جو آدمی دل سے خدا کا شکر ادا کرے وہ امتحان میں کامیاب ہوا اور جس کے دل میں شکر کا جذبہ نہیں اُمنڈا وہ اپنے امتحان میں نا کام ہو گیا۔ میرے تجربہ کے مطابق، آپ کا گھروہ گھر تھا جہاں میں نے لوگوں کی زبان پر شکر کا چرچا پایا۔ جہاں افرادِ خانہ کے اندر یہ زندہ شعور موجود تھا کہ اگر نہ ملے ہوئے کو پانا چاہتے ہو تو پہلے ملے ہوئے پر دینے والے کا شکر ادا کرو۔ شکر در اصل مزید عطیہ کے لیے استحقاق کی حیثیت رکھتا ہے۔
9دسمبر2003، نئی دہلی دعا گو:وحیدالدین