حکمت ِ اعراض
ایک صاحب اپنے خط مورخہ 28ستمبر1999ءمیں لکھتے ہیں:میں نے ہندی اخبار ’’ہندستان‘‘کاشمارہ 28ستمبر1999ءپڑھا۔اس کے اداریہ میں یہ لکھاتھا کہ حال میں سورت(گجرات)میں ’’گنیش وسرجن‘‘کاجلوس نکلا۔اس موقع پر پولیس اورجلوس کے درمیان ٹکرائوہوگیا۔پتھرائواورفائرنگ کے نتیجہ میں جلوس کے آٹھ افراد ہلاک اورکئی درجن زخمی ہوگئے ۔یہ جلوس شہرکے مسلم محلہ کی ایک مسجد کے پاس سے گزررہاتھا۔ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ مسلم اورہندویامسلم اورپولیس کے درمیان لڑائی ہوجاتی مگر عملاً اس کا الٹاہوا۔ مسلمانوں نے وہاں پر صبر کا رویہ اپنایاجس کی وجہ سے انہیں اس کا پھل مل گیا۔اس میں کسی بھی مسلمان کا نقصان نہیں ہوا۔کیونکہ ٹکرائو انتظامیہ اورہندوئوں کے درمیان ہواتھا۔یہ پڑھ کرآپ کی وہ بات یاد آگئی جو آپ’’الرسالہ‘‘یاکئی دیگرکتابوں میں لکھ چکے ہیں ۔(سہیل احمد،حسن البنامنزل، جامعۃ الفلاح ،بلریاگنج،اعظم گڑھ)
’’سورت‘‘کایہ واقعہ تمام اخباروں میں آچکاہے ۔اس واقعہ میں بہت بڑاسبق ہے ۔ اس سبق کی طرف الرسالہ میں باربارنشاندہی کی جاتی رہی ہے ۔وہ یہ کہ — مسلم کش فسادات کا اصل سبب جلوس کا نکلنااوراس کا مسلم محلہ سے گزرنانہیں ہے،بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ جب جلوس نکلے تو محلہ والے اس کے مقابلہ میں غیر حکیمانہ رویہ اختیار کریں ۔ حکیمانہ رویہ ہمیشہ حفاظت کا ضامن ہوتاہے اورغیرحکیمانہ رویہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتاہے۔
اس معاملہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جلوس کے وقت وہاں کے مسلمان اگر منفی رد عمل کا طریقہ اختیارکریں تو مسئلہ مسلم ورسس پولیس بن جائے گا۔اوراگر وہاں کے مسلمان ایسے موقع پر اعراض کارویہ اختیار کریں توسارامسئلہ جلوس ورسس پولیس بن جائے گا۔اس اصول کی صداقت باربارفسادات کی صورت میں سامنے آچکی ہے ۔سورت کا مذکورہ واقعہ اس حکمت کی ایک مثبت مثال ہے ۔
دورِاول کے مسلمان مخالفین کی سازشوں اورزیادتیوں کے درمیان گھر ے ہوئے تھے۔اس وقت نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہاگیاکہ :اگر تم صبر کرواوراللہ سے ڈروتو ان کی کوئی سازش تم کو نقصان نہ پہنچائے گی(3:120)۔اب یہ غورکیجیے کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں صبر کس طرح ڈھال بن جاتاہے ۔اورزیر سازش گروہ کو اس کے نقصان سے محفوظ رکھتاہے ۔
اصل یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں جب بھی کوئی ناخوشگوارصورتِ حال پیش آئے تو اس کے مقابلہ میں ردِّعمل کی دوصورتیں ہیں ۔ایک یہ کہ اشتعال انگیزصورتِ حال کو دیکھ کر آدمی بھڑک اٹھے اورفوری جذبات کے تحت جوابی کارروائی کرنے لگے ۔اوردوسرایہ کہ فریقِ ثانی کی طرف سے اشتعال انگیزی کے باوجود وہ مشتعل نہ ہوبلکہ اپنے جذبات کو روک کرپورے معاملے پر غورکرے ۔اوراس کے بعد جو کچھ کرے ٹھنڈے ذہن کے تحت سوچ سمجھ کرکرے ۔
مذکورہ تقسیم میں پہلی قسم کے ردِّعمل کا نام غیر صابرانہ ردِّعمل ہے اوردوسری قسم کے ردِّعمل کانام صابرانہ رِّدعمل ۔دوسرے لفظوں میں اس فرق کو اس طرح بیان کیاجاسکتاہے کہ غیرصابرانہ ردِّ عمل پیش آمدہ صورتِ حال کا جذباتی جواب (emotional response) ہے ۔اس کے برعکس، صابرانہ ردِّ عمل یہ ہے کہ پیش آمدہ صورتِ حال کے مقابلہ میں جو جوابی کارروائی کی جائے وہ ایک سوچاسمجھاجواب (considered response)ہو۔
صبر کوئی بے عملی نہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کے سامنے کوئی ناپسندیدہ صورتِ حال پیش آئے تو وہ پست ہمت ہوکربیٹھ جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ صبر اعلیٰ ترین بہادری ہے ۔جب ایک آدمی بے صبری کے ساتھ جذباتی اقدام کرتاہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے جذبات سے مغلوب ہوگیا۔اس کے برعکس، جب ایک آدمی صبر والی روش اختیارکرتاہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ اس نے اپنے بھڑکے ہوئے جذبات کو قابومیں رکھا۔اس نے اپنے جذبات کو اپنی عقل پر غالب ہونے نہیں دیا۔