صبر کیوں
قرآن و حدیث میں صبر (patience) پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن میں صبر کو سب سے زیادہ قابل انعام (most rewardable) عمل بتایا گیا ہے (10:39)۔ صبر کیا ہے۔ صبر یہ ہے کہ آدمی اجتماعی زندگی میں ردعمل (reaction) سے بچے، اور ہر حال میں مثبت رویہ (positive behaviour ) پر قائم رہے۔اجتماعی زندگی میں اس کا رسپانس ہمیشہ مثبت رسپانس ہو، نہ کہ جوابی انداز کا رسپانس۔
صبر کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسانی سماج میں صبر واحد قابل عمل فارمولا (only workable formula) ہے۔ یعنی انسان کے خالق نے اس کو کامل آزادی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انسان آزاد ہے کہ وہ اپنی آزادی کو درست طور پر استعمال کرے یا غلط طور پر۔ وہ اپنے عمل کی پلاننگ دوسروں کے ساتھ رعایت کرتے ہوئے کرے یا دوسروں کی رعایت کیے بغیر۔ ایسی حالت میں اجتماعی زندگی میں ضروری ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے ہوئے اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں۔ ایسا ہی منصوبہ اس دنیا میں قابل عمل منصوبہ ہے۔ اس کے برعکس، جس منصوبہ میں دوسروں کی رعایت شامل نہ ہو، وہ کبھی اس دنیا میں تکمیل تک پہنچنے والا نہیں۔
صبر بظاہر دوسروں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ خود صبر کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو صبر واحد نتیجہ خیز عمل ہے۔ اس کے برعکس، بے صبری (impatience) مثبت نتیجہ پیدا کرنے والا عمل نہیں۔ صبر کو دوسرے الفاظ میں نتیجہ خیز منصوبہ بندی (result oriented planning) کہا جاسکتا ہے۔ صبر کسی کے لیے دانش مندانہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، بے صبری ایک بے دانشی کا عمل ہے۔ حیوان کے لیے بے صبری کا جواز ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ حیوان کے پاس عقل نہیں۔ مگر انسان کے لیے بے صبری کا کوئی جواز نہیں۔ کیوں کہ انسان کو عقل دی گئی ہے، جس کے ذریعہ وہ صبر کی اہمیت کو پیشگی طور پر سمجھ سکتا ہے۔