صبر کرنے والے
قرآن میں صبر کی بہت زیادہ اہمیت بتائی گئی ہے۔ چار مقام پر صبّار کا لفظ آیا ہے، یعنی بہت زیادہ صبر کرنے والے(14:5; 31:31; 34:19; 42:33)۔ایک مقام پر یہ آیا ہے: فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ (11:49)۔ یعنی، پس صبر کرو بیشک آخری انجام ڈرنے والوں کے لیے ہے۔ ان آیتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی کا تعلق بہت زیادہ صبر سے ہے۔ صبر ہے تو کامیابی ہے، صبر نہیں تو کامیابی نہیں۔
اس دنیا میں کامیابی کے لیے صبر کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دنیا اجتماعی زندگی کی دنیا ہے۔ یہ دنیا کسی اکیلے انسان کی دنیا نہیں ہے، بلکہ اجتماعی زندگی (collective life)کی دنیا ہے۔ یہاں بہت سے لوگوں کو مل جل کر رہناپڑتا ہے۔ آپ کوئی منصوبہ بنائیں، اور اس کے لیے اللہ سے دعا کریں، تو آپ خواہ کتنا ہی زیادہ صحیح راستے پر ہوں، لیکن آپ کی کامیابی کا راستہ بہت سے دوسرے لوگوں کے درمیان سے گزرے گا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ یہ دنیا اسباب و علل کے اصولوں پر قائم ہے۔ اس دنیا میں کوئی کامیابی تدریجی عمل (gradual process) کے روپ میں حاصل ہوتی ہے۔ ہر آدمی کو دوسرے انسان کے ساتھ مل جل کر آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر آدمی اپنے سفر کے ساتھ دوسرے لوگوں کو اپنے سفر کا راستہ دینا پڑتا ہے۔ تب ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان اپنے سفر کو کامیابی کی منزل تک پہنچائے۔
یہی زندگی کا وہ تقاضا ہے، جس کی وجہ سے ہر انسان کو صبر کا اصول اختیار کرنا پڑتا ہے۔ دوسروں کو مواقع دینے کے بعد ہی ایک شخص کو اپنے لیے زندگی کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ یہ عین وہی اصول ہے، جس کو ٹریفک کا اصول کہا جاتا ہے، یعنی راستے پر دوسرے چلنے والے کو موقع دے کر اپنے لیے چلنے کا راستہ نکالنا۔ گویا سفر ایک مینجمنٹ کا معاملہ ہے۔ صحیح مینجمنٹ سے آپ کا سفر کامیابی کی منزل تک پہنچے گا، اور اگر غلط مینجمنٹ ہو تو آپ کا سفر کہیں پہنچنے والا نہیں۔ کامیاب سفر صابرانہ مینجمنٹ کے نتیجے کا دوسرا نام ہے۔