صبر دین کا خلاصہ
صبر دین کا خلاصہ ہے۔ صبرہرقسم کی نیکیوں کی بنیاد ہے۔ صبر دنیا میں کامیابی کا زینہ ہے اور آخرت میں وہ جنت کی کنجی ہے۔ قرآن میں صبر کے بارے میں ایک ایسی آیت ہے جو کسی بھی دوسرے عمل کے بارے میں نہیں۔ فرمایا کہ بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا:إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ(39:10)۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر1469؛صحیح مسلم، حدیث نمبر1053)۔ یعنی، صبر سے بہتر اورصبر سے بڑا کوئی عطیہ انسان کو نہیں دیا گیا ۔ ابن حجر العسقلانی نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:الصَّبْرُ جَامع لمكارم الْأَخْلَاق(فتح الباری لابن حجر، جلد11، صفحہ 305)۔ یعنی، صبر تمام اعلیٰ اخلاقیات کا جامع ہے ۔
احادیث و آثار میں کثرت سے صبر کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ صبرکی حیثیت ایمان میں وہی ہے جو حیثیت انسانی جسم میں سر کی ہے:الصَّبْرُ مِنَ الْإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ(الزہدلوکیع بن الجراح، حدیث نمبر 199)۔ابن جوزی نے لکھا ہے کہ:عَاقِبَةِ الصَّبْرِ الْجَمِيل جَمِيلَة(صيد الخاطر، جلد1، صفحہ 402)۔ یعنی، صبر جمیل کا انجام بھی جمیل ہے۔
ابن منظور نے لکھا ہے کہ:أَصل الصَّبْر الحَبْس،والصَّبْرُ نقِيض الجَزَع(لسان العرب ، جلد4، صفحہ 438)۔یعنی، صبر کی اصل رُکناہے، صبر بے چین اور بے برداشت ہونےکا الٹا ہے۔ راغب الاصفہانی نے لکھا ہے کہ:الصبر الإمساك والصبر حبس النفس على ما يقتضيه العقل والشرع (المفردات الراغب الاصفہانی، جلد1، صفحہ 273)۔یعنی، صبر کی حقیقت امساک (پوری قوت سے کنٹرول کرنا)ہے۔ صبر یہ ہے کہ آدمی عقل اور شریعت کے تقاضے کے مطابق اپنے آپ کو روکے۔
صبر کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ہے ۔ اس کی وجہ موجودہ دنیا کی صورت حال ہے۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اسی امتحان یا آزمائش کی مصلحت کی بنا پر یہاں ہرشخص کو پوری آزادی دی گئی ہے۔ یہ انسانی آزادی خود خدا کے منصوبہ کے تحت ہے، اس لیے کوئی بھی اس کو بدلنے پرقادر نہیں ۔