صبر ، عجلت
قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ— پس تم صبر کرو جس طرح ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیا، اور ان کے لیے عجلت نہ کرو(46:35)۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہے صابرانہ عزیمت ، اور دوسری چیز ہے بے صبری اور عجلت۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کی ان آیتوں کامطالعہ کیجیے جو نبوت کے ابتدائی دورمیں مکہ میں اُتاری گئیں:
اے کپڑے میں لپٹنے والے، اٹھ اور لوگوں کوڈرا، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر۔ اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ۔ اور گندگی کوچھوڑ دے۔ اور ایسا نہ ہوکہ احسان کرو اور زیادہ بدلہ چاہو۔ اور اپنے رب کے لیے صبر کرو(74:1-7)۔
سورۂ مدثر کی ان آیات کی روشنی میں مذکورہ فرق کومتعین کیاجائے تو وہ یہ ہوگا کہ موجودہ حالات میں صرف انہی چند احکام پر عمل کرو، اور بقیہ تمام معاملات کوصبر کے خانہ میں ڈال دو۔
یعنی انذارو تبشیر کے انداز میں لوگوں کو آخرت کے مسئلہ سے آگا ہ کرو۔ اللہ کی عظمت و کبریائی تمہاراموضوعِ کلام بن جائے۔ اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار میں اپنے آپ کو ڈھال لو۔ ہرقسم کی اعتقادی اور عملی برائیوں سے آخری حد تک دور ہو جائو۔ لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک کرو، مگر ان سے بدلہ پانے کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لیے۔
یہ گویا پانچ نکاتی پر وگرام تھا جو اس وقت دیا گیا۔ اگر چہ اس وقت مکہ میں اس کے سوا بہت سے مسائل تھے۔ مثلاً کعبہ میں 360بتوں کا ہونا، سماج میں طرح طرح کے جرائم، مکہ کی پارلی منٹ( دارالندوہ) پر مشرکین کا قبضہ، عرب میں رومی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر کا سیاسی نفوذ، وغیرہ ۔مگر ان سب پر صبر کاحکم دیا گیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس وقت جن کاموں کے لیے نتیجہ خیز جدوجہد ممکن ہے، ان پر محنت کرو، اور جن کاموں میں بروقت نتیجہ خیز عمل ممکن نہیں ہے ان سب کو مستقبل کے حالات پر چھوڑ دو۔