ردّ ِعمل اسلام میں نہیں
بہت سے لوگ جنگ اور تشدد میںمبتلا ہیں، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اُن سے کہا جائے کہ تم یہ تباہ کُن کام کیوں کررہے ہو، تو وہ یہ جواب دیں گے کہ— یہ تو ایک فطری ردّ عمل ہے۔ جب کسی گروہ کے خلاف ظلم اور نا انصافی کا واقعہ پیش آئے گا، تو اس کے اندر ضرور جوابی ردّ عمل (reaction) پیدا ہوگا۔ وہ گن اور بم استعمال کرے گا۔ یہاںتک کہ آخر کار وہ خوکُش بم باری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کرے گا۔ اگر ہمارے متشددانہ ردّ عمل کو ختم کرنا ہے، تو فریقِ ثانی کی طرف سے کیے جانے والے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ ہماری طرف سے متشددانہ کارروائیوں کا سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ ردّ عمل (reaction) کو ختم کرنا ہے تو پہلے عمل (action) کو ختم کیجیے۔ اِس معاملے میںیک طرفہ نصیحت سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔
ردّ عمل کا یہ فلسفہ سرتاسر غیر فطری ہے۔ ایسے لوگوں کی اصل غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ذہنوں میں عمل کا غلط معیار قائم کرلیا ہے۔ عمل کا صحیح معیار یہ ہے کہ عمل کے بعد پیش آنے والے نتیجہ (result) کو دیکھا جائے۔ صحیح عمل کی پہچان یہ ہے کہ وہ عمل کرنے والوں کے لیے مفید نتیجہ پیدا کرے۔ جو عمل مفید نتیجہ پیدا نہ کرے، وہ سرے سے قابلِ ترک ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عمل یا تو مفید نتیجہ پیدا کرتا ہے، یا وہ عمل کرنے والوں کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive)ثابت ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں تیسری کوئی صورت نہیں۔ عملی اقدام وہی درست ہے جو نتیجہ خیز ہو۔ جو عملی اقدام نتیجہ خیز نہ ہو، وہ صرف اپنی تباہی میںاضافے کے ہم معنیٰ ہے، اور اپنی تباہی میں اضافہ کبھی کسی دانش مند کا کام نہیں ہوسکتا۔
کسی عمل کے مقابلے میں جذباتی ردّ عمل، اُس عمل کا جواب نہیں۔ عمل کا حقیقی جواب یہ ہے کہ پہلے صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، مثبت ذہن کے ساتھ نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی جائے، پھر ٹکراؤ کے بجائے تعمیر کے اصول پر اپنے عمل کا آغاز کیا جائے۔ یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔