فطرت کا قانون
ایک مسلم رائٹر کا مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون انڈیا کے مسلم مسائل کے بارے میں ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیںکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان اس ملک میں امتیاز کا سامنا کررہے ہیں،ملازمتوں میں اور داخلوں میں، نیز فرقہ وارانہ تشدد کے وقت:
There is no denying that Muslims face discrimination in jobs and admissions and also communal violence.
عام طور پر مسلمانوںکا لکھنے اور بولنے والا طبقہ اسی قسم کی بات لکھتا اور بولتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ مسلمانوں کی خدمت نہیں کررہے ہیں۔ ان کی یہ باتیں باعتبار نتیجہ حوصلہ شکنی کی باتیں ہیں۔ جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر صورتِ حال میں ہمیشہ ایسی بات کہی جائے جو حوصلہ افزائی کے ہم معنی ہو۔
امتیاز (discrimination) کیا ہے۔ وہ ایک فطری صورتِ حال کو منفی اصطلاح میں بیان کرنا ہے۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والے جس چیز کو امتیاز کہتے ہیں، وہ دراصل چیلنج کی صورتِ حال ہے۔ یہ دنیا کا قانون ہے کہ یہاں ہمیشہ اجتماعی زندگی میںچیلنج اور مسابقت کی صورتِ حال قائم رہتی ہے۔ اس کی بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ پیچھے ہوجاتے ہیں۔مگر یہ ایک وقتی صورتِ حال ہے، وہ مستقل طور پر قائم رہنے والی نہیں۔
انسان کبھی اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ اس بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والوں کے اندر داعیہ (incentive) جاگتا ہے۔ وہ عام حالات کے مقابلے میں زیادہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے والا پیچھے ہوجاتا ہے، اور پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ عمل ہر سماج میں اور ہمیشہ جاری رہتا ہے۔یہ فطرت کا ایک قانون ہے، اورکوئی بھی اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے قانون کو بدل دے۔مثال کے طور پر اس ملک میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ڈاکٹر عبد الکلام جب پیدا ہوئے تو وہ ایک پچھڑے ہوئے انسان تھے، مگر بعد کے زمانے میںلوگوں نے دیکھا کہ وہ دونوں افراد اگلی صف میں جگہ حاصل کرچکے تھے۔