بیسویں صدی

20 ویں صدی انسانی تاریخ کی وہ صدی ہے، جب کہ قدیم روایتی دور کا خاتمہ اپنی انتہا کو پہنچا ۔ بیسویں صدی میں پہنچ کر دنیا کے حالات مکمل طور پر بدل گئے ہیں۔ اس صدی میں ایسے واقعات پیش آئے، جس نے دنیا کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو نئی شکل دی۔ نئے تاریخی عمل کے نتیجہ میں اب دنیا میں نہ شخصی حکمرانی ہے اور نہ جابرانہ سیاسی نظام۔ 1991ء میں سوویت ایمپائر کا ٹوٹنا انسانی تاریخ میں نظام جبر کے خاتمہ کی آخری تکمیل تھی۔ اب اس قسم کا سیاسی جبر بھی دنیا میں واپس آنے والا نہیں۔

آج کے توحید پرستوں کو نہ اس کی ضرورت ہے کہ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف ہجرت کریں اور نہ یہ ضرورت ہے کہ وہ وقت کے حکمرانوں سے مسلح ٹکراؤ کریں، تاکہ انہیں ختم کر کے اپنے لیے آزادنہ دینی زندگی کے مواقع حاصل کر سکیں۔ کیوں کہ یہ چیزیں تواب تاریخی عمل کے نتیجہ میں اپنے آپ انہیں حاصل ہو چکی ہیں۔ اس انقلابی تبدیلی کے دو بڑے پہلو ہیں—(1) مکمل مذہبی آزادی (2) جدید وسائل۔

موجودہ زمانہ انسانی تاریخ کا پہلا زمانہ ہے جب کہ ایک طرف فکری انقلابات اور دوسری طرف اقوام متحدہ کے قیام کے نتیجہ میں ہر فرد اور ہر گروہ کا نا قابل تنسیخ حق مان لیا گیا ہے کہ وہ مکمل طور پر یہ حق رکھتا ہے کہ جس مذہب کو چاہے مانے، اس پر عمل کرے اور اس کی تبلیغ کرے، صرف اس ایک شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے خلاف تشدد کا کوئی فعل نہ کرے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ پر امن مذہبی زندگی یاپرامن  دعوت و تبلیغ کے راستہ میں آج کسی بھی قسم کی کوئی خارجی رکاوٹ موجود نہیں۔

قرآن میں اصحاب رسول کو یہ دعا تلقین کی گئی تھی کہ اے ہمارے رب، تو ہمارے اوپر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے پچھلی امتوں پر ڈالا تھا: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا(2:286)۔ یہ گویاد عا کی صورت میں اس آنے والے دور کا پیشگی اعلان تھا جو پیغمبر آخر الزماں کی امت کے لیے اللہ نے مقدر کیا تھا۔ خاتمہ عسر کایہ دور اب دنیا میں پوری طرح آچکا ہے۔

ایسی حالت میں آج کے مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ نئے دور آزادی پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کا بھر پور استقبال کریں ، نہ کہ وہ خود ساختہ نظریات کی بناپر نئے دور کے سیاسی حکمرانوں سے غیر ضروری ٹکر اؤ شروع کر دیں اور پھر صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمر کے اس پیشگی انتباہ کا مصداق ہیں کہ اللہ کی توفیق سے اصحاب رسول نے سیاسی فتنہ کا خاتمہ کر دیا تھا، مگر تم لوگوں نے اپنی نادان کارروائیوں کے ذریہ سیاسی فتنہ کو دوبارہ اپنے خلاف زندہ کرلیا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4515)۔ 

اس سلسلہ میں دوسری اہم چیز جدید وسائل کا ظہور ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی اور صنعتی انقلاب کے بعد ایسے نئے وسائل کار ظہور میں آئے ہیں جو اپنی تاثیر کے لحاظ سے اتنازیادہ دور رس ہیں کہ اب سیاسی اقتدار عملاً ثانوی درجہ کی چیز بن گیا ہے۔ آج وہ سب کچھ مزید اضافہ کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کی امید قدیم زمانہ میں صرف سیاسی اقدار کے ذریہ کی جاسکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان وسائل کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو آج کی دنیا میں ایسادینی ایمپائر بنایا جاسکتا ہے جس کا تصور بھی قدیم سیاسی ایمپائر کے زمانہ میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom