ہر چیز پرچۂ امتحان
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئےفرمایا:تَعْلَمَ أنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 77)۔یعنی، یاد رکھو، جو تم کو ملا، وہ تم سے کھویا جانے والا نہ تھا۔ اور جو کچھ تم سے کھویا گیا،وہ تم کو ملنے والا ہی نہ تھا۔
اِس حدیثِ رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو کچھ ملتا ہے، وہ نہ اتفاقاً ملتا ہے اور نہ بطور انعام۔ موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو کچھ ملتا ہے، وہ صرف پرچۂ امتحان کے طورپر ملتا ہے۔ خدا کے فیصلے کے تحت، ہر عورت اور مرد کو کچھ چیزیں دی جاتی ہیں، تاکہ اُن چیزوں میں آزما کر دیکھا جائے کہ آدمی کا رویّہ کیسا تھا۔ خدا کبھی کوئی چیز دے کر امتحان لیتا ہے کہ آدمی نے اُس پرشکر کیا، یا اُس کو پاکر وہ گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا۔ اِسی طرح کوئی چیز چھین کر خدا آدمی کا امتحان لیتا ہے کہ اُس سے محروم ہو کر اُس نے صبر کیا، یا وہ شکایت کی نفسیات میں مبتلا ہوگیا۔
یہ خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan)ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کی نظر اِس پر نہیں ہونی چاہیے کہ اُس نے کیا پایا اور اُس سے کیا چھینا گیا۔ اِس کے بجائے اُس کو اپنا سارا دھیان اِس پر لگانا چاہیے کہ اُس کو جن حالات میں رکھ کر خدا نے اُس کا امتحان لینا چاہا تھا، اُس میں اُس نے مطلوب رسپانس (response) دیا، یا وہ مطلوب رسپانس دینے میں ناکام ہوگیا۔
یہ زندگی کا مثبت تصور ہے۔ یہ زندگی کا مثبت فارمولا ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا ہوجائے، وہ کبھی ٹنشن میں مبتلا نہیں ہوگا۔ وہ کسی بھی حال میں مایوسی یا تلخی کا شکار نہیں ہوگا۔ کوئی تجربہ اُس کو زندگی کی تعمیری شاہراہ سے ہٹانے والا ثابت نہ ہوگا۔ وہ کبھی فکری انتشار کا شکار نہ ہوگا۔ اُس کی زندگی میں کبھی یہ حادثہ پیش نہیں آئے گا کہ اُس کی زندگی حالات کے بھنور میں پھنس کر رہ جائے اور وہ آخری منزل تک نہ پہنچے۔