مثبت سوچ، منفی سوچ

قرآن کی سورہ الاحزاب میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے، جو سارے زمین وآسمان کو نہیں دی گئی، اور وہ امانت ہے، یہی امانت وہ چیز ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے۔ امانت سے مراد دراصل وہی چیز ہے جس کو فری تھنکنگ (free-thinking) کہاجاتا ہے، یعنی آزادانہ طورپر سوچنا اور آزادانہ طورپر اپنے عمل کی پلاننگ کرنا۔ اس امانت کی صحیح ادائیگی انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہے، اور اس امانت کی ادائیگی میں ناکام ہونا انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے (33:72-73)۔

اس موقع پر قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، ظلوم اور جہول، یعنی غیر عادل اور نادان۔ انسان اپنی آزادی کو غلط استعمال کرنے کی بنا پر بہت جلد عدل (justice) سے ہٹ جاتا ہے، اور اسی طرح وہ آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر دانش مندی (wisdom) کے راستے سے ہٹ جاتاہے۔ یہی انحراف (deviation) اس کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔

غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی اصلاح کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنی فطرت (nature) سے نہ ہٹے۔ اگر آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرے اور فطرت کے راستے سے نہ ہٹے تو فطرت خود ہی اس کی راہ نما بن جائے گی۔ فطرت سے ہٹنا آدمی کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے، اور فطرت پر قائم رہنا آدمی کو کامیاب بناتا ہے۔

مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی آزمائش اس بات میں ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح انتخاب (right choice) کو لے، وہ اپنے آپ کو غلط انتخاب سے بچائے۔ صحیح انتخاب اور غلط انتخاب کا یہ معاملہ فکر سے بھی تعلق رکھتا ہے، اور عمل سے بھی۔

فکرکے اعتبار سے صحیح انتخاب وہ ہے جس کا نمونہ آغازِحیات کے وقت فرشتوں نے اختیار کیا، اور غلط انتخاب وہ ہے جس کو ابلیس نے اپنا شیوہ بنایا۔ فرشتوں سے جب کہاگیا کہ انسان کے آگے جھک جاؤ تو وہ جھک گئے۔ اس کے برعکس، ابلیس اس پر راضی نہ ہوا۔ اس نے یہ اعتراض کیا کہ انسان کو خلیفة الارض کیوں بنایا گیا۔ یہ اعتراض انتخابی سوچ (selective thinking) کی ایک مثال تھی۔ ابلیس جنوں کا سردار تھا۔ جن کو خدا نے اس سے زیادہ چیز دی تھی، یعنی خلافت کائنات۔ لیکن ابلیس نے اس پہلو کو نظر انداز کیا اور صرف یہ سوچا کہ انسان کو زمین کی خلافت کیوں دی گئی۔

یہی برائی پوری تاریخ میں رائج ہے۔ انسانوں کی ننانوے فیصد سے زیادہ تعدادمنفی سوچ میں پڑی ہوئی ہے، یعنی انتخابی سوچ۔ ملے ہوئے کو نظر انداز کرنا، اور نہ ملے ہوئے کو مسئلہ بنا کر اس کو اپنی سوچ کا محور بنانا۔

اس معاملے میں مسلمانوں کا استثنا نہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ساری دنیا میں ہر قسم کے بہترین مواقع پائے ہوئے ہیں، جس طرح دوسرےلوگ ان کو پائے ہوئے ہیں۔ لیکن فطرت کے قانون کے تحت ایسا ہے کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو مسلمانوں کو نہیں ملی۔ مسلمان یہ کررہے ہیں کہ اسی نہ ملے ہوئے کو اپنی سوچ کا مرکز ومحور بنائے ہوئے ہیں اور ملے ہوئے کو نظر انداز کررکھا ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں منفی سوچ کی دلدل میں پڑے ہوئے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ شکر سے محروم ہیں جو کسی انسان کی سب سے بڑی عبادت ہے۔

مسلمانوں کی اس منفی سوچ کا سبب کیا ہے، وہ ہے 99 فی صد کو نظر انداز کرنا، اور ایک فی صد کو لے کر اپنی رائے بنانا۔ یہ نہایت برا طریقہ ہے۔ یہ اللہ کی سنت کے خلاف ہے۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہوں، ان کو اس کی سب سے بڑی قیمت یہ دینی پڑے گی کہ ان کے اندر مثبت شخصیت نہ بنے— مثبت شخصیت سے محرومی کا مطلب ہے اللہ کی رحمت سے محرومی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom