صبربہادری ہے
صبر بہادری ہے، اور بے صبری بزدلی۔ جو لوگ صبر کرنے پر تیار نہ ہوں انھیں آخر کار بزدل بن کر اس دنیا میں رہنا پڑے گا۔ اور بزدلی کا دوسرانام منافقت ہے جس سے زیادہ بری اخلاقی صفت اور کوئی نہیں۔
موجودہ دنیا میں خود فطری نظام کے تحت بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے شکایت پیدا ہوتی ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ذہنی یا جسمانی تکلیف پہنچتی ہے یہ ایک لازمی صورت حال ہے۔ یہ معاملہ انسانی زندگی کے آغاز ہی میں ہابیل اور قابیل کے ٹکرائو کی صورت میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد وہ تاریخ کے ہر دور میں، حتی کہ پیغمبروں کے زمانہ میں بھی جاری رہا ، وہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے اور خود اس دنیا ہی کاخاتمہ ہو جائے۔
ایسی حالت میں کسی بھی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اپنی پسند کے عین مطابق ایسی زندگی حاصل کرلے جہاں اس کو نہ کسی سے شکایت ہو اور نہ کسی سے اختلاف ۔ ایسا انتخاب موجودہ دنیا میں کسی کے لیے ممکن ہی نہیں، نہ صالحین کے لیے اور نہ غیر صالحین کے لیے۔
موجودہ دنیا میں حقیقی انتخاب صرف دو روش کے درمیان ہے۔ آپ یا تو گھر سے باہر تک ہر ایک سے مسلسل لڑتے رہیں یا شکایت واختلاف کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ پہلی روش اگر پھول کے درخت میں اس کے کانٹوں سے الجھنے کا نام ہے تو اس کے مقابلہ میں دوسری روش یہ ہے کہ کانٹے کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کے پھول کو لے لیاجائے۔
مگر پہلی روش کسی کے لیے بھی مستقل طور پر ممکن نہیں کیوں کہ وہ اپنی اور اپنے گھر کی تباہی کے ہم معنی ہے۔ اورکوئی بھی اتنا نادان نہیں کہ وہ مستقل طور پر اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو تباہی کے گڑھے میں ڈال دے۔ اس لیے عملاً یہ ہوتا ہے کہ بے صبری کی روش اختیار کرنے والے وقتی طور پر دوسروں سے لڑتے ہیں اور آخرکار اس کاتباہ کن نتیجہ دیکھ کر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں مگر ایسی خاموشی کا مطلب منافقت ہوتا ہے۔
موجودہ دنیا میں آپ کو بہر حال صبر کرنا ہے۔ اگر آپ اصول کی بنیاد پر صبر نہ کریں تو آپ کو مفاد کی بنیاد پر صبر کرنا پڑے گا اور اسی دوسری روش کانام منافقت ہے۔