قرآنی طریقہ
موجودہ دنیا میں آدمی امتحان کی حالت میں ہے۔ اور جب وہ امتحان کی حالت میں ہے تو اس کو آزادی بھی دی گئی ہے۔ اب کچھ لوگ آزادی کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ آزادی کے غلط استعمال ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ دنیا میں فساد ہوتا ہے۔ باہمی مقابلے پیش آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف عداوتیں جاگتی ہیں۔ اجتماعی زندگی میں تلخی اور شکایت کے لمحات پیش آتے ہیں۔ یہ سب عین قانون قدرت کے تحت ہوتا ہے۔ اور جو چیز خود قدرت کے منصوبہ کے تحت پیش آئے اس کو ختم کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ۔
اب اس کا حل کیا ہے۔ قرآن میں واضح طور پر اس کا حل بتایا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ لوگ رد عمل کا طریقہ نہ اختیار کریں، بلکہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے حکمت اور تدبیر کے ساتھ معاملہ کریں :
جہالت کے مقابلہ میں اعراض کرنا (7:199)۔
عمل سوء کے مقابلہ میں عمل حسن (41:34)۔
ایذا رسانی کے مقابلہ میں صبر (14:12)۔
حمیت جاہلیہ کے مقابلہ میں سکینہ( 48:26)۔
قرآن کی ان ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کر کے دوسرے شخص کو اذیت پہنچائے تو دوسرے شخص کو جوابی طریقہ نہیں اختیار کرنا ہے، بلکہ برداشت کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ اس کو اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہیں ہونا ہے۔ اس کو نفرت کے جواب میں محبت کا تحفہ پیش کرنا ہے۔ اگر وہ ایسا کرے تو قدرت کا قانون حرکت میں آجائے گا اور وہ زیادہ بہتر طور پر اس کے مسئلہ کو حل کر دے گا۔
صبر و اعراض انسان کا معاملہ نہیں، وہ حقیقتاً خدا کا معاملہ ہے۔ یہ خود خدا کی مرضی ہے کہ لوگ صبر کریں۔ کیونکہ اس کے بغیر خدا کا منصوبۂ امتحان مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ثواب بہت ہے۔ بلکہ اس کا ثواب تمام دوسرے اعمال سے زیادہ ہے۔ قرآن میں خصوصی طور پر وعدہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے لیے صبر کریں، ان کو ان کا اجر بے حساب مقدار میں دیا جائے گا۔