مذہبی صداقت کا سائنسی ظہور
قرآن کے مطابق، تفکر اور تدبر کی تشریح کا صحیح طریقہ وہ ہے جس کو ربانی تعقل کہا جاسکتا ہے۔ یعنی قرآن کے اشارات کو رہنمابنا کر تخلیق خدا وندی کا مطالعہ کرنا اور حقائق فطرت کی روشنی میں اُن کی تشریح و تفصیل کرنا۔ مطالعہ کا یہی اسلوب حقیقی اسلوب ہے۔ اس سے وہ اہل ایمان پیدا ہوتے ہیں جو معرفتِ الٰہی اور خشیتِ ربانی کی نعمت سے سرشار ہوں۔ قرآن کی سورہ آل عمران کے آخری رکوع میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی اس حقیقت کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا ہے۔
اس سلسلہ کی دو قرآنی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی اُتارا۔ پھر ہم نے اُس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کردیئے۔ اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ مختلف رنگوں کے ٹکڑے ہیں اور گہرے سیاہ بھی۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ کے ہیں۔ اللہ سے اُس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست ہے، بخشنے والا ہے (35:27-28)۔
ربانی تعقل کی تشریح کے لیے موجودہ زمانہ میں نئے وسیع امکانات کھل گئے ہیں۔ جدید سائنس کی تحقیقات نے موجودہ زمانہ میں فطرت کی جن چھپی ہوئی حقیقتوں کو دریافت کیا ہے وہ گویا اسی ربّانی تعقل کی تفصیل ہیں۔ ربانی تعقل کے ان جدید امکانات کو پیشگی طورپر قرآن میں بتادیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک متعلق آیت کا ترجمہ یہ ہے: ہم عنقریب اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اورخود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے (41:53)۔
احمد اور الترمذی نے حضرت انس بن مالک کے حوالہ سے ایک حدیث نقل کی ہے۔ اس کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ (مسند احمد، حدیث نمبر12327؛ سنن الترمذی، حدیث نمبر2869)۔ یعنی، میری امت کی مثال بارش کی مانند ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کا اوّل بہتر ہوگا یا اُس کا آخر۔
بارش جب ہوتی ہے تو اُس کے ابتدائی دور میں بھی انسان کو بہت سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مگر بعد کے مرحلہ میں جب بارش سے سیراب ہو کر زمین سبزہ اور درخت اُگاتی ہے تو اس دوسرے مرحلہ میں اُس کی برکتیں اور زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اب فصل اور پھول اور پھل، وغیرہ پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے لیے بے پناہ خیر وبرکت کا ذریعہ ہیں۔
یہی معاملہ دین محمدی کا ہے۔ دین محمدی کا ظہور ہوا تو اُس وقت دنیا اپنے روایتی دور میں تھی۔ اُس دور میں بھی اس دین کے پیروؤں کو اُس سے بے پایاں فائدے حاصل ہوئے۔ بعد کے زمانہ میں جب کہ دنیا سائنسی دو رمیں داخل ہوگی تو اُس وقت بھی اس دین کے پیروؤں کو نئے امکانات کے اعتبار سے عظیم فائدے حاصل ہوں گے۔ دین کی علمی و فکری عظمت از سرِ نو نئی شان کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں پر قائم ہوجائے گی۔
اس حدیث میں امت کے دورِ آخر میں جس عظیم خیر کی پیشین گوئی کی گئی ہے اُس سے مراد غالباً وہی سائنسی حقیقتیں ہیں جنہوں نے نئے وسیع تر انداز میں اس امکان کا دروازہ کھول دیا کہ انسان اُن کواستعمال کرکے یقین کے اعلیٰ درجات حاصل کرے۔ اور اسلام کی صداقت کو نئے دلائل و براہین کے ذریعہ لوگوں کے اوپر ثابت شدہ بنائے۔