ایک تجربہ

میں نے1999ء میں مانچسٹر (انگلینڈ )کا سفر کیا ۔ اس سفر میں میں نے چند دن ایک نوجوان عرب میزبان العارف احمد کے یہاں قیام کیا تھا۔وہ وہاں رفیوجی (asylum) کی حیثیت سے ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں رہتے ہوئے ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ یہ واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:

جمعرات کی صبح ، 17 جون 1999ء کا دن تھا۔ میں مانچسٹر میں میزبان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ جب میں بالائی منزل کے ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، تو میں نے دروازے پر ایک ہلکی سی دستک سنی۔ میں نے دروازہ کھولا تو مجھے تقریباً پانچ سال کی عمر کی ایک بچی کھڑی دکھائی دی ۔یہ ہمارے میزبان العارف صاحب کی بیٹی، قانتہ تھی۔ اس نےانتہائی معصومیت سے پوچھا : ترید حاجۃ (آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟) ۔ اگرچہ یہ ایک معمولی قسم کا سوال تھا ، لیکن میں اس معصوم آواز سے اُوَروِھلم (overwhelm) ہوگیا۔ اس قدراُوَروِھلم ہوگیا کہ جواب میں مَیں اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکا۔

بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ(normal event)تھا ۔ لیکن میرے ذہن میں یہ ایک عظیم واقعہ (supernatural event) میں کنورٹ ہو گیا۔ چنانچہ اس بچی کی معصوم آواز سن کر مجھے ایسا لگا جیسے خدا نے گویا میرے پاس ایک فرشتہ بھیجا ہے، تاکہ وہ میری ضروریات کو دریافت کرے، اور اسے پورا کرے۔اسی لمحے ایک حدیث میرے ذہن میں آئی: رب العالمین روزانہ آسمانِ دنیا پر آتا ہے ، اور پکارتا ہے: کیا کوئی ہے جو محتاج ہو ،اور مجھ سے مانگے ،تو میں اسےعطا کروں؟ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1145)

’’ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ ‘‘ ایک چھوٹا سا سوال تھا جو ایک معصوم بچی نے پوچھا تھا ۔ لیکن میرے اندرونی وجود میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا کرنے کے لیے یہ سوال کافی تھا۔وہ انقلاب جس کو آج کی زبان میںبرین اسٹارمنگ (brainstorming) کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔

تھوڑی دیر کے لیے میں نے محسوس کیا کہ کائنات کی تمام چیزیں میرےمائنڈ کی اسکرین پرموجود ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا روحانی تجربہ تھا، جس کا اظہار انسانی الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ابتدا میں یوں لگتا تھا، جیسے خدا ایک’’ننھے فرشتے‘‘ کے ذریعہ کہہ رہا ہے:اے میرے بندے ، کیا تم کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ پھر اس عمل میں گویا پوری کائنات بھی شامل ہوگئی۔

میرے سامنے بظاہر ایک چھوٹی سی لڑکی تھی ،جو مجھ سے پوچھ رہی تھی :کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟لیکن اپنے توسیعی معنی کے اعتبار سے یہ ایسا ہی تھا جیسے پوری کائنات ایک ہی سوال پوچھ رہی ہو۔ وسیع آسمان کہہ رہا ہو :کیا آپ کو کسی پناہ گاہ کی ضرورت ہے؟میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، تاکہ میں آپ کو پناہ گاہ مہیا کروں ، کیونکہ خدا نے مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چمکتا ہوا سورج کہہ رہا ہو :کیا آپ کو روشنی کی ضرورت ہے؟ میں یہاں روشنی کی فراہمی کے لیے اور آپ کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ اونچے پہاڑ اعلان کررہے ہوں: کیا آپ انسانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونا چاہتے ہیں؟ میں یہاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، تاکہ آپ کو انسانیت کا اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں مدد کروں۔ بہتے ہوئےدریاکی روانی یہ کہہ رہی ہو : کیا آپ کو اپنے تزکیہ کے لیےروحانی غسل کی ضرورت ہے؟ میں یہاں آپ کو روحانی غسل دینے کے لیے حاضر ہوں۔ ہوا کے جھونکےپوچھ رہے ہوں : کیا آپ خدا کے عجائبات (wonders) کو دیکھنے کے لیے کائنات کی سیر کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کے لیے اس روحانی سفر پر جانے کے لیے میری پشت موجود ہے۔

درخت سرگوشی کر رہے ہوں :کیا آپ ہماری طرح کی نمو پذیر اور مثبت شخصیت رکھنا پسند کریں گے؟ ہم یہاں آپ کی خواہش کو حقیقت بنانے کے لیے نمونہ کی حیثیت سےموجود ہیں۔ ان کی شاخوں پر پھل اور ان کی پتیاںاعلان کررہی ہوں :اگر آپ اپنی شخصیت کے لیے فکری اور روحانی غذا (intellectual food)کی خواہش رکھتے ہیں، تو ہم آپ کو اس کی فراہمی کے لیے حاضر ہیں۔

جب یہ سین میرے دماغ میں چل رہا تھا، تو میں نے پرندوں کے چہچہانےکو سنا، جو گویا یہ پیغام دے رہے تھے :اے خدا کے بندے! یہاں تمہارے لیے خوشخبری ہے، اگر تمہیںکوئی ضرورت ہے، تو خدا نے پوری کائنات تمھاری ضروریات کو پورا کرنے کے بنایا ہے۔ خدا اتنا فیاض ہے کہ اس نے ساری کائنات کو دن رات تمھاری خدمت میں حاضر رہنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ پوری کائنات تمھارے لیے کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) ہے۔ مزید یہ کہ اگر آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں تو وہ آپ کو ان سب سے بھی ایک بڑا انعام عطا کرے گا، یعنی ابدی جنت، جہاں نہ کوئی خوف ہوگا،اور نہ وہ غمگین ہوں گے (الانعام،6:48)۔

پھر میرے ذہن میں قرآن کی یہ آیت آئی:وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہ (14.34)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس زمین پر مناسب طور پر زندگی گزارنے کے لیے جو بھی ضرورت ہے ، وہ براہ راست اور بالواسطہ طور پر خدا نے پہلے سے تیار کرکے رکھ دی ہے۔ مثلاً انسانی خدمت کے لیےگھوڑےاور دوسرے جانور براہِ راست عطیات ہیں، جب کہ ہوائی جہاز بالواسطہ انداز میں نیچر میں پوٹنشل (potential)طور پر رکھ دیے گئے تھے، جو دورِ جدید میںدریافت ہوئے۔ ہوا کے ذریعے آواز کا سفر براہِ راست عطیے کی ایک مثال ہے ، جب کہ الیکٹرانک آلات کے ذریعے اس کی ترسیل بالواسطہ عطیہ ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:اس نےگھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے بھی اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے (16:8) ۔

اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کی اس طرح تربیت کریں کہ زندگی کا ہر تجربہ اور آس پاس کا ہر واقعہ ان کے لیے شکر کا آئٹم بن جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom