صبر کا انعام
قرآ ن میں بتایا گیا ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب انعام دیا جائے گا: إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ(39:10)۔ یعنی، بیشک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بےحساب دیا جائے گا۔ قرآن کی اس آیت میں جو بات بیان کی گئی ہے، وہ کوئی پراسرار بات نہیں ہے، وہ ایک معلوم حقیقت کا بیان ہے۔ وہ میدانِ جنگ میں صابرانہ لڑائی سے متعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایمانی زندگی میں صابرانہ روش سے متعلق ہے۔
اس آیت میں انعام سے مراد مومن کے شخصی ارتقا (personality development) میں اضافہ ہونا ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے میں سیب سے رس (juice) نکالنے کے لیے سادہ طریقہ استعمال ہوتا تھا۔ اس لیے رس کی مقدار کم ہوا کرتی تھی۔ موجودہ زمانے میں سیب سے رس نکالنے کے لیے مشینی دباؤ (mecahnical pressure) استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے موجودہ زمانے میں سیب کی اسی مقدار سے بہت زیادہ جوس نکالا جاتا ہے، جتنا کہ پہلے نکلتا تھا۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر پوٹنشل کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کم پریشر میں وہ کم نکلتا ہے، لیکن جب پریشر بڑھ جائے، تو اس کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ جب مشکل حالات زیادہ ہوں، اس کے باوجود اہل ایمان سچائی کی روش پرصبرکرکے قائم رہیں، تو اس کشاکش کے دوران انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج کرتی ہے۔
ایسی حالت میں زیادہ مشکلات کے باوجود ایمان کی روش پر جمے رہنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے انسان کے اندر تخلیقی صلاحیت (creativity) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے انسان کے اندر محبتِ الٰہی اور خوفِ خدا میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے معرفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے متقیانہ سوچ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے،وغیرہ۔