صبر کی عظمت
ایک حدیث رسول صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: إِنَّ نَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ، فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ، فَأَعْطَاهُمْ حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ:مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ :يُغْنِهِ اللهُ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1469)۔ یعنی، انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا۔ آپ نے ان کو دے دیا، انھوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دے دیا، انھوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دے دیا۔ یہاں تک کہ جو کچھ تھا آپ کے پاس وہ ختم ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا میرے پاس جو کچھ بھی مال ہوگا، میں تم سے بچا نہیں رکھوں گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے جو شخص غنا کا طریقہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے غنا میں اضافہ کرے گا اور جو شخص صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا کرے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر اور کشادہ نعمت نہیں ملی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے سے مانگ کر حاصل کرلے۔ لیکن اس سے زیادہ اعلی طریقہ یہ ہے کہ آدمی محنت کرے، اور خود اپنی محنت کے ذریعہ حاصل کرے۔اس دنیا میں محنت کے ذریعہ پانے کے مواقع ہر ایک کے لیےکھلے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے، اس کو وہ اپنی محنت کے ذریعہ حاصل کرے۔
محنت کے ذریعہ حاصل کرنا، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ بہت سے مزید فوائد کا ذریعہ ہے۔ آدمی جب ذاتی محنت سے حاصل کرنا چاہتا ہے، تو وہ اپنی سوچ میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ منصوبہ بندی کا طریقہ دریافت کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو زیادہ سنجیدہ بناتا ہے۔ وہ اپنے شکر کے جذبات میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ اپنے اندر ذہنی ارتقا کے عمل کو جاری کرتا ہے، وغیرہ۔