رُجز سے اعراض
مکہ کے ابتدائی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ حکم اترا کہ لوگوں کے درمیان انذار کا کام کرو۔ اس سلسلے میں ایک مزید حکم دیا گیا : وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی، رجز کو چھوڑ دو۔ رجز کو چھوڑ نے کا مطلب یہ ہے کہ رجز سے اعراض کرتے ہوئے اپنے مشن کا کام مثبت طور پر جاری رکھو۔
رجز کا لفظی مطلب ہے گندگی(dirt)۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رکاوٹ والی چیزوں سے نہ الجھتے ہوئے اپنا کام جاری رکھو۔اتھارٹی (authority) سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنا مشن ممکن حدود میں پر امن طور پر جاری رکھو، بے نتیجہ عمل سے دور رہتے ہوئے نتیجہ خیز سرگرمیوں میں اپنی کوشش صرف کرو۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ جب کسی مقصد کے لیے اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے رکاوٹوں سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔وہ اتھاریٹی سے ٹکراؤ کو اپنے عمل کا آغاز سمجھ لیتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کی طاقتیں ضائع ہوتی ہیں۔ نفرت اور تشدد بڑھتا ہے۔ منفی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں، لیکن مثبت سرگرمیوں کو فروغ پانے کا موقع نہیں ملتا۔ جو ملنے والی چیز ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی، البتہ جو چیز ملنے والی نہیں، اس پر ساری طاقت خرچ کردی جاتی ہے۔ یہ بلاشبہ غیر حکیمانہ طریقہ ہے۔ لیکن پوری تاریخ میں لوگ اسی طریقے پر عمل کرتے رہے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر صورت حال میں مواقع (opportunities) موجود رہتے ہیں۔ مواقع کو استعمال کرکے فوراً ہی نتیجہ خیز عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن غیر دانش مندانہ سوچ کی بنا پر لوگوں کا دھیان فوراً مسائل (problems) کی طرف چلاجاتا ہے۔ اس معاملے میں قرآن نے ایک ایسی رہنمائی دی جو سرتا سر دانش مندی پر قائم ہے۔ یعنی مسائل اور مواقع کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) کرنا، مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو استعمال کرنا:
ignore the problem, avail the opportunity