ایک سادہ مثال
مذکورہ حدیث میں جس حقیقت کو بتایا گیا ہے اُس کو اگرلفظ بدل کر کہا جائے تو وہ یہ ہوگی کہ انسانی تاریخ کے دو بڑے دور ہیں۔ ایک قبل از سائنس دور (pre-scientific period) اور دوسرا بعد ازسائنس دور (post-scientific period)۔اس تقسیم کے مطابق، پہلے دور کا انسان روایتی معلومات کی روشنی میں سوچتا تھا۔ اور دوسرے دور میں وہ سائنسی معلومات کی روشنی میں سوچنے لگا۔ اس حدیث کے مطابق، امت محمدی کے افراد کے لیے روایتی دور بھی ایمانی خوراک کا ذریعہ تھا۔ اسی طرح سائنسی دور میں بھی وہ اپنے ایمانی اضافہ کے لیے علمی خوراک حاصل کرتے رہیں گے۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک سادہ مثال درج کی جاتی ہے۔
قرآن میں بار بار زمین کی نعمتوں کا ذکر آیا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک قرآنی آیت یہ ہے: اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا(40:64)۔ یعنی، وہ اللہ ہے جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو ٹھہراؤ۔ اس آیت میں روایتی دور کے مؤمنین کو بھی ایمان کی غذا ملی تھی۔ یہ سوچ کر اُن کا سینہ شکر خداوندی کے جذبہ سے سرشار ہوگیا تھا کہ زمین کس طرح اُن کے لیے پر سکون جائے قیام بنی ہوئی ہے۔ اگر زمین ہلتی رہتی یا وہ ہچکولے کھاتی تو اس کے اوپر پُر سکون زندگی گزارنا کس قدر دشوار ہو جاتا۔
جدید سائنسی دور میں نئے ذرائع سے جو مطالعہ کیا گیا اس سے معلو م ہوا کہ زمین ، سابق تصور کے خلاف ساکن اور بے حرکت نہیں ہے بلکہ وہ مسلسل حرکت میں ہے۔ نئی تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین بیک وقت دو طریقہ سے گردش کررہی ہے۔ ایک اپنے مدار (orbit)پر سورج کے گرد، اور دوسرے خود اپنے محور (axis) کے اوپر۔
اس نئی سائنسی تحقیق نے مذکورہ آیت کی معنویت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ نئے حالات میں یہ آیت گویا مزید اضافہ کے ساتھ یہ کہہ رہی ہے کہ— کیسا مہربان ہے وہ اللہ جس نے زمین کو تمہارے لیے جائے سکون بنایا، باوجودیکہ زمین مسلسل طورپر دہرا حرکت کر رہی ہے:
It is God who made the earth a stable home for you, inspite of continuous double movement of the earth.
حدیث کی تمثیل کے مطابق، ’’بارش‘‘ کے پہلے دور میں اگر انسان سادہ طورپر یہ سمجھ کر زمین کو اپنے لیے خدا کی رحمت جانتا تھا کہ وہ اُس کے لیے پُر سکون جائے قیام بنی ہوئی ہے، تو اب بارش کے دوسرے دور میں وہ اس اضافہ کے ساتھ اس معاملہ میں خدا کا شکر کرے گا کہ دہرا طور پر مسلسل حرکت میں ہونے کے باوجود خدا نے زمین کو اُس کے لیے سکون کا مقام بنا دیا ہے۔