مشتعل نہ ہونے کا کرشمہ

کسی بات کا جواب اگر مشتعل ہوکر دیا جائے تو اس کا نتیجہ منفی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اگر آدمی سخت بات سنے مگر وہ اپنے اعتدال کو نہ کھوئے،بلکہ اشتعال کے بغیر جواب دے تو نتیجہ معجزاتی طور پر موافق صورت میں نکلے گا۔اس کا سبب یہ ہے کہ اشتعال انگیز جواب سے سننے والے کی انا بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غیر ضروری طور پر دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر معتدل انداز میں جواب دیا جائے تو سننے والے کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ اور گفتگو فطری انداز میں ہونے لگتی ہے۔ پیدائشی طور پر ہر آدمی آپ کا دوست ہے۔ اس کے بعد آپ کا رویہ یا تو اس کی دوستی کو باقی رکھتا ہے یا اس کو دشمن بنا دیتا ہے۔ اس نوعیت کی ایک تاریخی مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔

تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل (Mongols)نے عباسی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے سمرقند سے لے کر حلب تک مسلم سلطنت پر قبضہ کرلیا۔ اس کے کچھ سال بعد یہ معجزاتی واقعہ ہوا کہ تاتاری قبائل کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ اسلام کے دشمن اسلام کے خادم بن گئے۔

اس تاریخی واقعہ پر پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ(1864-1930ء)نے ریسرچ کی ہے۔ ان کی کتاب دی پریچنگ آف اسلام (The Preaching of Islam) کے باب Spread of Islam among the Mongols کے تحت اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔

اس زمانے میں تاتاری لوگ مسلمانوں کو سخت حقیر سمجھنے لگے تھے۔ اس دور کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک دن تاتاری شہزادہ تغلق تیمور خاں نے ایک ایرانی مسلمان شیخ جمال الدین کو دیکھا۔ اس نے نفرت کے ساتھ کہا کہ تم اچھے یا میرا کتا اچھا۔ شیخ جمال الدین نے اس کو سن کر معتدل انداز میں جواب دیا: اگر ہمارے پاس سچائی(true faith)نہ ہوتی تو ہم کتّے سے بھی بدتر ہوتے۔یہ جواب سن کر شہزادہ کا غصہ ختم ہوگیا۔اس نے شیخ کو الگ سے بلا کر بات کی کہ مجھے بتاؤ یہ ایمان کیا چیزہے۔ اس طرح شیخ کو موقع مل گیا کہ وہ شہزادے سے اسلام کے بارے میں تفصیل سے بات کر سکیں۔پروفیسر آرنلڈ نے اس واقعہ کواپنی کتاب میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

Tūqluq Timūr Khān (1347-1363), is said to have owed his conversion to a holy man from Bukhārā, by the name Shaykh Jamāl al-Dīn. This Shaykh, in company with a number of travellers, had unwittingly trespassed on the game-preserves of the prince, who ordered them to be bound hand and foot and brought before him. In reply to his angry question, how they had dared interfere with his hunting, the Shaykh pleaded that they were strangers and were quite unaware that they were trespassing on forbidden ground. Learning that they were Persians, the prince said that a dog was worth more than a Persian. ''Yes'' replied the Shaykh, ''if we had not the true faith, we should indeed be worse than the dogs.'' Struck with his reply, the Khan ordered this bold Persian to be brought before him on his return from hunting, and taking him aside asked him to explain what he meant by these words and what was ''faith''. The Shaykh then set before him the doctrines of Islam with such fervour and zeal that the heart of the Khān that before had been hard as a stone was melted like wax, and so terrible a picture did the holy man draw of the state of unbelief, that the prince was convinced of the blindness of his own errors, but said, ''Were I now to make profession of the faith of Islam, I should not be able to lead my subjects into the true path. But bear with me a little and when I have entered into the possession of the kingdom of my forefathers, come to me again.''

(The Preaching of Islam, London, 1913, p. 235)

شیخ جمال الدین سے ملاقات کے بعد کچھ اور واقعات پیش آئے یہاں تک کہ تغلق تیمور خاں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد اس نے حکمت کے ساتھ لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتایا۔ یہاں تک کہ تاتاریوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ شیخ جمال الدین کا مشتعل جواب تاریخ کو دوسرا رخ دے دیتا۔ لیکن ان کے معتدل جواب نے تاریخ کو صحیح رخ پر ڈال دیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom