قرآن کی ہدایت

 قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم لوگ صبر کا طریقہ اختیار کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ ان سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (3:120) ۔

ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ صبر اور تقوی کے ذریعہ شرپسندوں کے شرسے اور فاجروں کی سازش سے اپنے آپ کو بچائیں: يُرْشِدُهُمْ تَعَالَى إِلَى السَّلَامَةِ مِنْ شَرِّ الْأَشْرَارِ وَكَيْدِ الْفُجَّارِ بِاسْتِعْمَالِ الصَّبْرِ وَالتَّقْوَى (تفسير ابن كثير ، جلد2، صفحہ94)۔

 صفوۃ التفاسیر میں ہے کہ اگر تم نے ان کی ایذا پر صبر کیا اور اپنے اقوال اور اعمال میں تم اللہ سے ڈرے تو ان کی سازش اور ان کی تدبیر تم کو کچھ نقصان نہ پہنچائے گی۔ پس اللہ نے ان کے ضرر کو ختم کرنے کے لیے صبر اور تقوی کی شرط لگائی:أي إن صبرتم على أذاهم واتقيتم الله في أقوالكم وأعمالكم لا يضركم مكرهم وكيدهم، فشرط تعالى نفي ضررهم بالصبر والتقوى (صفوۃ التفاسیر، جلد1، صفحہ205 )۔

 ہندستان میں فرقہ پرستوں کے جلوس اور ان کے دل آزار نعروں کے سلسلہ میں صبر اور تقویٰ کا انطباق کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان ان کی اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہوں۔ وہ ان کی دل آزاری کو یک طرفہ طور پر برداشت کر لیں۔ وہ رد عمل کا اظہار کرنے کے بجائے خاموشی کا رویہ اختیار کریں۔ وہ ہمیشہ صبر کے رویہ پر قائم ر ہیں۔

دوسرے یہ کہ وہ کسی حال میں بھی تقوی کی روش نہ چھوڑیں۔ ایسے مواقع پر دنیوی انجام سے زیادہ اخروی انجام کو وہ اپنے سامنے رکھیں۔ وہ قوم پرستی کے بجائے اصول پسندی کا انداز اختیار کریں۔ فریق ثانی کی دشمنی کے باوجود وہ اس کے ساتھ بے انصافی نہ کریں ۔ وہ جو کچھ کریں، یہ سمجھ کر کریں کہ ان کو اللہ کے یہاں اس کا جواب دینا ہے۔ وہ اللہ کے معاملہ میں حساس اور انسانوں کے معاملہ میں غیر حساس بن جائیں۔

 مسلمان اگر اس طرح صبر و تقوی کا طریقہ اختیار کریں تو یقینی طور پر مخالفین کی ہر سازش بے اثر ہو جائے گی۔ ہر مخالفانہ تدبیر ان کے حق میں ناکام ثابت ہوگی۔

مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ  إِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (3:120)۔یعنی،اللہ ان کی سرگرمیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ فقرہ بہت بامعنیٰ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے شرپسندوں کے شر سے بچاؤ کے لیے صبر و تقوی کے جس طریقہ کی تعلیم دی ہے، وہ ایک ایسا طریقہ ہے جو معاملہ کے اوپر پوری طرح حاوی ہے۔ وہ یقینی طور پر ایک بے خطا طریقہ ہے۔ وہ کبھی ناکام ہونے والا نہیں۔

 اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ وہ انسان کی سرشت اور اس کے مزاج سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس نے جو اصلاحی اور دفاعی تدبیر بتائی ہے، وہ اپنے علم کلی کے تحت بتائی ہے۔ اللہ کے لیے یہ ایک پوری طرح معلوم مسئلہ کا پوری طرح معلوم جواب ہے۔ یہ حل تمام متعلق پہلوؤں کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کوئی بھی صورت حال ایسی نہیں جو اس کے دائرۂ اثر سے خارج ہو۔

ان خصوصیات نے اس حل کو ایک بے خطاحل بنا دیا ہے۔ تم جب بھی اس کو استعمال کرو گے، اس کا نتیجہ تمہارے حق میں ہی نکلے گا۔ کوئی بھی انسانی گروہ اس کے دائرہ سے باہر نہیں۔ شرانگیزی کی کوئی بھی آگ ایسی نہیں جو اس طریقہ کو کام میں لاکر بجھائی نہ جاسکتی ہو۔ اس تدبیر کے اندر ہر بم کو ناکارہ بنا دینے کی طاقت ہے، خواہ بظاہر وہ کیسا ہی خطر ناک بم کیوں نہ ہو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom