حمد کلچر

قرآن میں خالق کائنات کو رب العالمین کہا گیا ہے۔ راغب الاصفہانی(وفات 502ھ) نے رب کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: ہو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام (المفردات فی غریب القرآن، صفحہ 336)۔ یعنی کسی چیز کی پرورش کرکے اس کو درجہ بدرجہ کمال تک پہنچانا۔ رب العالمین کی اس صفت کا اظہار مادی کائنات میں بھی ہواہے، اور انسانی تاریخ میں بھی۔ مادی کائنات میں ربوبیت کی مثال یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی سب سے پہلی دریافت، شعوری طور پر تو نہیں ، مگر غیر شعوری طور پر یہ ہوتی ہے کہ کیسا عجیب ہے ،وہ خالق جس نے پوری دنیا کو میرے لیے کسٹم میڈ دنیا بنا دیا۔ رحم مادر اورخارجی دنیا کا پورا نظام عین وہی ہے، جو انسان کے لیے مطلوب تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے لیے بنا ہے، اور دنیا انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔

انسانی تاریخ میں اللہ تعالی صفت ربوبیت کا اظہار مختلف اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی، کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔قرآن کی اس آیت میں مایوسی سے بچنےکی تعلیم دی گئی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے پچھلے لمحات ختم ہوگئے، مگر اگلا لمحہ ابھی باقی ہے۔ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کو اویل کرو۔

اس معاملے میں انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ خدا کی حمد کرے، اور الحمد للہ کلچر کو اپنائے۔ حمد کی حقیقت شکر ہے۔جیسا کہ ایک حدیث رسول میں آیا ہے:الْحَمْدُ رَأْسُ الشُّکْرِ، مَا شَکَرَ اللہَ عَبْدٌ لَا یَحْمَدُہُ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 4085)۔ یعنی، حمد شکر کی بنیاد ہے، اس بندے نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا، جو اس کی حمد نہ کرے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom