اختلافِ رائے
مغرب کے سفر میں میری ملاقات ایک بڑے مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مغرب (West) کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوںنے جواب دیا — اختلافِ رائے کو انسان کا ناقابل تنسیخ حق سمجھنا:
To accept dissent as an absolute human right.
مغربی اسکالر کے اس جواب کو سننے کے بعد میں نے اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں،مثلاً:
Dissent: The History of an American idea, by Ralph Young
On Liberty by John Stuart Mill
The Constitution of Liberty by F. A. Hayek
اس موضوع پر اپنے مطالعے کے نتیجے میں میں اس رائے کی صداقت پر مطمئن ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغربی تہذیب سے پہلے انسانی تاریخ میں اختلاف رائے کو انسانی حق (human right) کا درجہ حاصل نہ تھا۔ یہ صرف مغربی تہذیب کے بعد ہوا ہے کہ اختلاف رائے کو متفقہ طور پر ایک یونیورسل نارم کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
اختلاف رائے کو ڈیسنٹ (dissent)کا نام دینا مغربی تہذیب کا ظاہرہ ہے۔ مغربی تہذیب سے پہلے یہ لفظ موجود نہ تھا۔ ڈیسنٹ ایک نیوٹرل(neutral) لفظ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مثبت اختلاف کے لیے یہ ایک صحیح ترین لفظ ہے۔ مثبت اختلاف صرف اختلاف ہوتا ہے، وہ نہ موافق ہوتا ہے، اور نہ مخالف۔ میں سمجھتا ہوں کہ مثبت اختلاف اجتماعی ترقی کے لیے شرط لازم ہے۔
اختلاف اگر صرف اختلاف ہو تو وہ نہایت آسانی سے مخالفت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اور مخالفت صرف ایک منفی سرگرمی ہے۔ مخالفت کو مثبت سرگرمی بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو مثبت معنی دے دیا جائے۔ یعنی اختلاف کو ڈیسنٹ کا معنی قرار دینا۔ مثبت اختلاف طرفین کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے، جب کہ منفی اختلاف کا دونوں میں سے کسی کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
میں ذاتی طور پر اختلاف رائے کو یہی درجہ دیتا ہوں۔ میں نے اپنے ذاتی تجربے سے یہ سمجھا ہے کہ اختلافِ رائے کو نہ ماننا خود اپنے ساتھ دشمنی کرنا ہے۔ اس لیے کہ اختلاف رائے کے ذریعہ زیرِ بحث مسئلے کے مختلف پہلو کھلتے ہیں۔ اس کے مختلف گوشے سامنے آتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کسی انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ جو آدمی اختلاف رائے کو برداشت نہ کرے، وہ یقینی طور پر ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہوگیا، اوروہ نعمت ہے ذہنی ارتقا۔
کسی نے درست طور پر کہا ہے:من ھو ناصحک، خیر لک ممن ھو مادحک (جو شخص تمہیں نصیحت کرے، وہ اس سے بہتر ہے جو تمھاری تعریف کرے )۔ جو آدمی حقیقت پسند ہو ، وہ یقیناً تنقید یا اختلاف رائے کو اپنے لیے ایک نعمت سمجھے گا۔ کیوں کہ تنقید اور اختلاف رائے ہمیشہ فکر کے نئے دروازے کھولنے والا ہے۔
تنقید یا اختلاف رائے کو کھلے ذہن کے ساتھ سننا میرے نزدیک کوئی تقویٰ کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ خالص علمی بات ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر سائنٹفک ٹمپر (scientific temper)موجود ہے۔ سائنٹفک ٹمپر اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی کے اندر اعتراف ِحقیقت (acceptance of reality) کا مزاج ہو۔ جب آپ اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ آپ آزادانہ سوچیں، اور آزادانہ رائے قائم کریں تو فطرت کے قانون کے مطابق آپ کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ دوسرے شخص کو بھی یکساں طور پر اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اختلاف رائے کو کھلے ذہن کے ساتھ سننا، گویا حقیقت ِواقعہ کا اعتراف کرنا ہے۔ اسی اعتراف کا دوسرا نام سائنٹفک اسپرٹ ہے۔