پھول اور کانٹا
انسان کا عرصۂ حیات (life span) بلین سال سے بھی زیادہ ہے۔ مگر یہ عرصۂ حیات دو مختلف دوروں میں بٹا ہوا ہے۔موت سے پہلے تقریباً سو سال اور بقیہ پوری مدت موت کے بعد۔ پہلے دور کی زندگی آج کی دنیا میں گزرتی ہے اور بعد کے دور کی زندگی کل کی دنیا میں گزرے گی۔
آج کی دنیا ایک مخلوط جنگل کی مانند ہے۔ یہاں پھول بھی ہیں اور اسی کے ساتھ کانٹے بھی۔ کل کی دنیا میں پھول اور کانٹے ایک دوسرے سے الگ کردئیے جائیں گے۔ اس کے بعد ایک ایسی ابدی دنیا بنے گی جس کے ایک حصے میں کانٹے ہی کانٹے ہوں گے اور دوسرے حصے میں پھول ہی پھول۔ آج کی دنیا میں ہر آدمی کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنے ابدی مستقبل کی تشکیل کرے۔ وہ اپنی زندگی کے ریکارڈ سے بتائے کہ کل کی دنیا میں وہ کانٹوں کے جنگل میں بسائے جانے کے قابل ہے یا پھولوں کے باغ میں۔
آج کی دنیا میں یہی گروپ بندی ہورہی ہے۔ ہرآدمی اپنی زندگی کے ریکارڈ سے یہ بتا رہا ہے کہ وہ دونوں گروپوں میں سے کس گروپ میں شامل کئے جانے کے لائق ہے۔ کانٹوں والے گروپ میں یا پھولوں والے گروپ میں۔آج کی دنیا کے حالات در اصل اسی شخصیت سازی کا ذریعہ ہیں۔ ہر عورت اور مرد اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔ کوئی اپنے اندر کانٹوں والی شخصیت بنا رہا ہے اور کوئی اپنے اندر پھولوں والی شخصیت کی تعمیر کررہا ہے۔ آج کی دنیا میں یہ دونوں قسم کے لوگ بظاہر الگ الگ دکھائی نہیں دیتے مگر کل کی دنیا میں دو نوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے پوری طرح الگ ہوجائیں گے۔ وہاں پھولوں والی شخصیت صرف پھول کے روپ میں دکھائی دے گی اور کانٹوں والی شخصیت صرف کانٹے کے روپ میں۔
شخصیت سازی کے اس دوطرفہ عمل کو دوسرے لفظوں میں مثبت شخصیت اور منفی شخصیت کہہ سکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ہر آدمی کو منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ اب ایک شخص وہ ہے جو ان منفی تجربات کو منفی حیثیت ہی سے لے لے۔ ایسے آدمی کے اندر منفی شخصیت بنے گی، دوسرا آدمی وہ ہے جو منفی تجربہ کو مثبت غذا میں تبدیل کرسکے۔مثلاً ایک شخص آپ کو برا کہتا ہے۔ ایک شخص آپ کوستاتا ہے۔ ایک شخص آپ کے ساتھ اشتعال انگیزی کرتا ہے۔ ایک شخص آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک شخص آپ کے خلاف تخریب کاری کرتا ہے۔اب آپ کے لیے جواب (response) کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ ویسا ہی کریں جیسا کہ دوسرے شخص نے آپ کے ساتھ کیا۔ یعنی جو شخص آپ کو برا کہے آپ بھی اس کو برا کہیں، جو شخص آپ کو ستائے آپ بھی اس کو ستائیں۔ جو شخص آپ کو نقصان پہنچائے آپ بھی اس کو نقصان پہنچائیں جو شخص آپ کے خلاف تخریب کاری کرے آپ بھی اس کے خلاف تخریب کاری کریں۔ جو شخص آپ کو اشتعال دلائے آپ بھی اس کے مقابلہ میں مشتعل ہوجائیں، وغیرہ۔
جو آدمی ایسا کرے اس نے اپنے اندر منفی شخصیت بنائی۔ اس نے اپنے سینہ میں کانٹوں کی فصل اگائی۔ ایسے آدمی کی شخصیت کانٹوں والی شخصیت ہے۔ وہ موت کے بعد کی اگلی دنیامیں کانٹوں والی شخصیت کے طورپر اٹھے گا اور پھر کانٹوں سے بھرے ہوئے جنگل کے اندر اس کو ڈال دیا جائے گاتاکہ ابد تک وہ حسرت اور غم کی زندگی گزارتا رہے۔
اس کے برعکس،دوسرا انسان وہ ہے جس نے دوسروں کی منفی روش کا مقابلہ مثبت رسپانس (response) سے کیا۔ جس کو دوسروں نے برا کہا مگر خود اس نے کسی کو برا نہیں کہا۔ دوسروں نے اس کو ستایا مگر اس نے کسی کو نہیں ستایا۔ جس کے خلاف دوسروں نے انتقامی کارروائی کی مگر اس نے دوسروں کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔جس کے خلاف دوسروں نے تخریب کاری کی مگر اس نے اپنی طرف سے کسی کے خلاف تخریب کاری نہیں کی۔ جس کو دوسروں نے نقصان پہنچایا مگر اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ جس کے خلاف دوسروں نے اشتعال انگیزی کی مگراس نے کسی کے خلاف کبھی اشتعال کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی۔
یہ دوسرا انسان وہ ہے جو کانٹوں کے درمیان پھول بن کررہا۔ اس نے اپنے اندر پھول جیسی شخصیت کی تعمیر کی۔ ایسے انسان کو اگلی دنیا میں یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ پھولوں کے باغ میں رہے۔ آج کی کانٹوں بھری دنیا میں پھول والی شخصیت بنانے کی تدبیر کیا ہے۔ اس کے لیے فطرت نے آج کی دنیا میں کچھ زندہ نمونے قائم کردیے ہیں۔ گائے اِسی قسم کا ایک نمونہ ہے۔ گائے فطرت کی ایک انڈسٹری ہے جس کو باہر کی دنیا سے گھاس کھانے کو ملتی ہے مگر وہ اپنے داخلی میکانزم کے تحت گھاس کو دودھ میں کنورٹ کرتی ہے۔ یہی معاملہ ہر عورت اور مرد کو اس دنیا میں کرناہے۔ ہر عورت اور مرد کو مسلسل یہ کرنا ہے کہ وہ ’’گھاس‘‘ کو ’’دودھ‘‘ کی صورت میں تبدیل کرتا رہے۔
انسان کے ذہن کے دوبڑے خانے ہیں۔ ایک شعوری ذہن (conscious mind) دوسرالاشعوری ذہن (unconscious mind) ۔ جب بھی کوئی بات آدمی کے ذہن میںآتی ہے تو پہلے وہ اس کے ذہن کے شعور کے خانہ میں آتی ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ آگے بڑھ کر اس کے ذہن کے لاشعور کے خانہ میں پہنچ جاتی ہے۔ لاشعور آدمی کے ذہن کا وہ خانہ ہے جہاں ہر بات دوامی طورپر محفوظ رہتی ہے مگر وہ آدمی کے شعور کی گرفت میں نہیں رہتی۔ جو آدمی پھول والی شخصیت بننا چاہے اس کو یہ کرنا ہوگا کہ جب بھی کوئی منفی آئٹم اس کے شعوری ذہن میں آئے تو اُسی وقت وہ اپنی سوچ کو متحرک کرکے اس منفی آئٹم کو مثبت آئٹم میں تبدیل کرے تاکہ جب آگے بڑھ کر یہ آئٹم آدمی کے لاشعور کے اسٹور میں محفوظ ہوتو وہاں وہ مثبت آئٹم کے طورپرمحفوظ ہو نہ کہ منفی آئٹم کے طور پر۔ مثلاً کوئی بات اس کے شعور میں نفرت کے احساس کے طورپر آئے تو وہ اس کو diffuse کرکے وہ اس کو محبت کے احساس میں تبدیل کرے۔ کوئی بات حسد کے احساس کے طورپر اس کے دماغ میں آئے تووہ اس کو بدل کر اعتراف کے احساس میں تبدیل کرلے۔کسی بات پر اس کا ایگو (ego)بھڑکے تو وہ اس کو بدل کر تواضع کی صورت دے دے۔ کوئی تجربہ اس کے اندر خود غرضی کا احساس پیدا کرے تو وہ بدل کر اس کو بے غرضی کا احساس بنادے۔ کسی واقعہ میںاس کو اپنی حق تلفی دکھائی دے تو اس کو وہ بدل کر شکر کے احساس میں ڈھال لے۔
جو عورت یا مرد اپنے اندر اس طرح کی شخصیت تعمیر کریں ان کا حال یہ ہوگا کہ ان کے شعور کا اسٹور مکمل طور پر مثبت آئٹم کا خزانہ بن جائے گا۔ وہ منفی آئٹم سے پوری طرح خالی ہوگا۔ ایسی مثبت شخصیت والے لوگ ہی موت کے بعد کی ابدی دنیا میں پھولوں والے باغ میں جگہ پائیں گے۔ جہاں وہ ابدی طورپر خوشی اور آرام کی زندگی گزاریں۔