صبر— ایک عظیم عمل
اگر آدمی ایک چیز کے کھونے پر صبر کرلے تو اس کے بعد وہ اس سے زیادہ بڑی چیز پالیتا ہے جس کے کھونے پر اس نے صبر کیا تھا— یہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ آدمی جب صبر کرتا ہے تو اس کا صبر ایک ایسی چیز پر ہوتا ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق پیش آئی تھی، جس میں آدمی کو کوئی اختیار نہیں۔ اس طرح صبر کا مطلب یہ ہے کہ نہ ملنے والی چیز پر محرومی کو بطور واقعہ تسلیم کرنا، اور ملنے والی چیز کے حصول کےلیے اپنی کوشش کو جاری رکھنا۔
صبر (patience) کوئی بے عملی کا واقعہ نہیں۔ بلکہ صبر ایک عظیم عمل ہے۔ صبر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو وہ اس پر افسوس کرکے اپنا وقت ضائع نہ کرے، بلکہ وہ اس کو بھلادے۔ یہی صابرانہ روش ہے۔ اس صابرانہ روش کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی بقیہ وقت کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے کہ نئے عزم کے ساتھ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ وہ نئے مواقع (opportunities)کو دریافت کرکے ان کو استعمال کرے۔ کھونے کے بعد بھی اس کے پاس جو کچھ بچا ہے اس کو منظم انداز میں کام میں لانے کی کوشش کرے۔ وہ گزرے ہوئے ناخوشگوار واقعے کو اپنے لیے ایک تجربہ بنا لے۔ وہ اس سے سبق سیکھے اور آئندہ زیادہ بہتر انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔
پرانا مقولہ ہے کہ صبرتلخ است ولیکن بر شیریں دارد (صبر کڑوا ہے، لیکن اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے)۔ دنیا کا قانون یہ ہے کہ بےصبری ہمیشہ آدمی کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔اور صبر آدمی کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ ایک چانس کو کھونے کے بعد دوسرے چانس کو نہ کھوئے، وہ دوسرے چانس کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اس نقصان کی تلافی کرلے۔اس دنیا کے بنانے والے نے اس کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ مواقع سے بھری ہوئی ہے۔ ایک موقع کو کھونا، کبھی خاتمہ کے ہم معنی نہیں ہوتا، بلکہ وہ نئے موقع کو دریافت کرکے اس کو استعمال کرنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔