مثبت تجربہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کئی غزوات پیش آئے، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو احد کہا جاتا ہے۔ اس غزوہ میں مسلمانوں میں سے ستر آدمی مارے گئے تھے، اور ستر زخمی ہوئے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ بھی زخمی ہوگئے تھے۔ اس مناسبت سے یہ آیت نازل ہوئی:
فَأَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أَصَابَکُمْ (3:153)۔ یعنی، پھر اللہ نے تم کو غم پر غم دیا تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے کھوئی گئی اور نہ اس مصیبت پر جو تم پر پڑے۔ اس موقع پر قرآن میں یہ نصیحت کی گئی— تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے کھوئی گئی۔
so that you might not grieve for what you lost,
یہاں رنجیدہ برائے رنجیدہ نہیں ہوسکتا۔ ضرور ہے کہ رنجیدہ نہ ہونے کا کوئی مثبت مقصد ہو۔ وہ مقصد یہ ہے کہ غزوہ ٔاحد کے موقع پر جو کچھ پیش آیا، وہ بظاہر ایک منفی واقعہ تھا، لیکن تم کو چاہیے کہ اس منفی واقعہ کو مثبت تجربہ میں بدلو۔ ایسا کس طرح ہوسکتا ہے۔ ایسا اس طرح ہوسکتا ہے کہ لوگ خالص غیر متاثر ذہن کے تحت پورے معاملے پر سوچیں، اور خالص سوچ کے ذریعے اس نتیجے تک پہنچیں کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ، بلکہ وہ نئی زندگی کا آغاز ہے۔
مصیبت پر رنجیدہ نہ ہونا، کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی اپنی جسمانی مصیبت کو ذہنی مصیبت نہ بنائے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ اس سے جو کچھ کھویا گیا، اس کے غم میں اپنا یہ حال کرلے کہ جو کچھ اب بھی اس کے پاس باقی ہے، اس سے غافل ہوجائے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کھوئے ہوئے کو فراموشی کے خانے میں ڈالے، اور جو کچھ اب بھی اس کے پاس بچا ہوا ہے، اس کو لے کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔ اس دنیا میں ہر ایک کو نقصان کا تجربہ ہوتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو بچے ہوئے کو جانے ، اور اس کی بنیاد پر اپنے لیے نئی زندگی کی تعمیر کرے۔ اسی کا نام دانش مندی ہے، اور یہی دانش مندی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔